قلزمِ ہستی
قلزمِ ہستی مانا کہ گنہگار ہوں پتلا ہوں خطا کا خوگر ہوں بہرحال تری حمد وثنا کا تجھ سے نہ ہو کیوں گردشِ ایام کا شکوہ خالق ہے کوئی اور بھلا ارض و سما کا اللہ کہاں ہیں وہ زمانے کے رفو گر صد چاک گریباں ہے ملت کی قبا کا وہ دور خراب ہے کہ مرے پاک وطن میں ہر شخص نظر آتا ہے بمبار لڑاکا ہیں ملک خداداد میں امریکا کے صدقے ہر روز ڈرون حملے ہر اک روز دھماکا مرجاتے ہیں وہ اور وں کو مارا نہیں کرتے تازہ جو کیا کرتے ہیں آئین وفا کا دیوانوں کو گزرے ہوئے اک عرصہ ہوا ہے پھر بھی ہے ترے کوچے میں اک شور بلا کا بے خوف جیا کرتے ہیں وہ مردِ خود آگاہ دل میں جو نہیں رکھتے کوئی خوف قضا کا ڈرتے ہیں صنم ضربِ براہیم سے اب بھی فرعون کو ڈر اب بھی ہے موسی کے عصا کا اک اُ س کے سوا اور کسی کو نہ پکارو ٹہرے ہوئے پانی میں نہیں کرتے چھناکا یہ قلزمِ ہستی ہے کہ ہے قطرہء ناچیز صحرائے نفس ہے کہ یہ جھونکا ہے ہوا کا انسان کو جو کچھ بھی دیا تو نے دیا خوب اندازہ بھلا کیا ہو ترے جو دو سخا کا ...