آنے جانے کا کھیل جاری ہے
آنے جانے کا کھیل جاری ہے کوئی کیا جانے کس کی باری ہے آخر ِکار سب جدا ہوں گے چار دن کی یہ رشتہ داری ہے یوں تو میٹھا بہت ہے جام حیات آخری گھونٹ اس کا کھاری ہے سر پہ منڈلا رہا ہے ملک الموت موت کا خوف دل پہ طاری ہے ایسے آغاز کی خوشی کیسی ؟ جس کا انجام سوگواری ہے زندگی وقت کیا گزارے گی وقت نے زندگی گزاری ہے فیض کچھ اہتمام کر اس کا منزل قبر سخت بھاری ہے شاعر نامعلوم