لبیک
لبیک بلندی ہے شایاں تری ذات کو ’’الٰہا بزرگی سزاوارِ تو‘‘ یہ دل اللہ اللہ دھڑکتا رہے ترا نام لب سے جدا تک نہ ہو میں دل کے مکیں* کا مکاں دیکھ لوں مرے آنسوؤ! مجھ کو رستہ تو دو جو اسود کو چھو لے وہ پارس بنے اسے بوسہ دینے کو آگے بڑھو بسا ہے جہاں نور ہی چار سو اسی وادیِ انتہا میں بسو اسی روشنی سے جلاؤ دیے اسی آگ میں عمر بھر اب جلو جو سوئے حرم لے کے جاتا نہ ہو ذرا سعدؔ اس راستے سے بچو شاعر: سعداللہ شاہ انتخاب از" ایک جگنو ہی سہی " * اللہ سبحانہ و تعالی عرش عظیم پر ہیں۔ ان کی یاد دل میں ہوتی ہے۔