وفا اور حکمت
قرآن مجید کی ایک خوب صورت آیت ہے : اپنے رب کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت سے دعوت دو۔ اس آیت کی من مانی تفسیر میں لوگ مداہنت کو بھی حکمت بتانے لگتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ حکمت ہے کیا ؟ حکمت کے لیے اب تک کوئی پیمانہ ایجاد نہیں ہوا ہے کہ کسی کے قول و فعل کو تول کر بتا دیا جائے اس میں اتنے اونس حکمت کم تھی یا زیادہ ۔ حکمت کے خود ساختہ پیمانوں کی بجائے اگر قرآن و سنت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے دین کے لیے غصہ کرنا عین حکمت ہے ۔ دین کہتا ہے جو جتنی طاقت رکھتا ہو اسے برائی سے روکنے میں استعمال کرے ، زبان ہے تو زبان سے، توانا ہے تو ہاتھ سے ، اور صاحب منصب ہے تو اختیار سے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت غیور ، توانا و صاحب حیثیت آدمی تھے ، ان کی دینی غیرت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : عمر جس راستے پر چلتا ہے ان کی ہیبت سے شیطان اس راستے کو چھوڑ کر نکل بھاگتا ہے ۔ میرے خیال میں اگر کسی جگہ اللہ کے دین کا، مقدس و پاک باز ہستیوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور وہاں موجود دین دار لوگ خاموش ہیں تو وہ دو ہی ہو سکتے ہیں : یا تو احمق جنہیں سمجھ ہی...