تم آنچل کو لہرا دینا
انتساب:
اپنی بیٹیوں اور سارى دنيا كى نئى نسل كے نام
از : سليم كوثر
وہ سارے سمے جو بيت گئے
كيا ہار گئے كيا جيت گئے
جتنے دكھ سكھ كے ريلے تھے
ہم سب نے مل كر جھيلے تھے
اب شايد كچھ بھی ياد نہیں
كبھی وقت ملا تو سوچیں گے
آپس كے پيار گھروندوں كو
گڑیوں كے کھیل كھلونوں كو
گیتوں سے مہكتى كيارى كو
آنگن کے پھل پھلوارى كو
دھرتى پر امن كى خواہش كو
موسم كى پہلى بارش كو
كن ہاتھوں نے بے حال كيا
كن قدموں سے پامال ہوئے
وہ سارے سمے جو بيت گئے
مل جل كر كتنے سال ہوئے
يہ سال مہینے دن گھڑیاں
ہم سب سے آگے نكل گئے
ہم جيون رتھ ميں جڑے ہوئے
كبھی سنبھل گئے کبھی پھسل گئے
دامن ميں صبر كى مايا ہے
کچھ آس اميد كى چھايا ہے
ہر راہ ميں كانٹے پڑے ہوئے
ہر موڑ پہ دکھ ہیں کھڑے ہوئے
تم بڑے ہوئے ، تم بڑے ہوئے
اب لورى پاس نہیں رہتی
تمہیں نيند كى آس نہیں رہتی
ميرى بات سنو ،
ميرى بات سنو
جب ہاں انكار ميں لپٹی ہو
تصوير غبار ميں لپٹی ہو
کہیں رشتے ٹوٹنے والے ہوں
یا اپنے چھوٹنے والے ہوں
جب ہر جانب ديواريں ہوں
اور پاؤں پڑی دستاريں ہوں
جب سچی بات پہ ہاتھ اٹھیں
پھر اٹھنے والے ہاتھ کٹیں
جب جھوٹ سے اصل بدل جائے
انصاف كى شكل بدل جائے
جب امن كى راہ نہ ملتى ہو
اور كہیں پناہ نہ ملتى ہو
کہیں ظلم كى آرى چلتی ہو
اور دلوں ميں نفرت پلتى ہو
كانٹوں سے بھرے جنگل ميں اگر
رنگوں كى سوارى جلتى ہو
ايسے ميں لہو كى خوش بو سے
من پھلوارى مہكا دينا
جہاں جيون سر خاموش ہو تم
آواز كے ديپ جلا دينا
جب سچ باتوں پر ہاتھ كٹیں
تم اپنا ہاتھ اٹھا دينا
جب كوئى نئى ديوار گرے
تم آنچل كو لہرا دينا
اور تيرہ شبى كے دامن ميں
اك ايسى آگ لگا دينا
جو نئى سحر كى آمد تك
اس دھرتى كى پيشانى سے
تاريكى كو بے دخل كرے
اور اندھياروں كو قتل كرے
۔۔۔۔۔۔
وہ سارے سمے جو بيت گئے
كيا ہار گئے كيا جيت گئے
جتنے دكھ سكھ كے ريلے تھے
ہم سب نے مل كر جھيلے تھے
از : سليم كوثر
وہ سارے سمے جو بيت گئے
كيا ہار گئے كيا جيت گئے
جتنے دكھ سكھ كے ريلے تھے
ہم سب نے مل كر جھيلے تھے
اب شايد كچھ بھی ياد نہیں
كبھی وقت ملا تو سوچیں گے
آپس كے پيار گھروندوں كو
گڑیوں كے کھیل كھلونوں كو
گیتوں سے مہكتى كيارى كو
آنگن کے پھل پھلوارى كو
دھرتى پر امن كى خواہش كو
موسم كى پہلى بارش كو
كن ہاتھوں نے بے حال كيا
كن قدموں سے پامال ہوئے
وہ سارے سمے جو بيت گئے
مل جل كر كتنے سال ہوئے
يہ سال مہینے دن گھڑیاں
ہم سب سے آگے نكل گئے
ہم جيون رتھ ميں جڑے ہوئے
كبھی سنبھل گئے کبھی پھسل گئے
دامن ميں صبر كى مايا ہے
کچھ آس اميد كى چھايا ہے
ہر راہ ميں كانٹے پڑے ہوئے
ہر موڑ پہ دکھ ہیں کھڑے ہوئے
تم بڑے ہوئے ، تم بڑے ہوئے
اب لورى پاس نہیں رہتی
تمہیں نيند كى آس نہیں رہتی
ميرى بات سنو ،
ميرى بات سنو
جب ہاں انكار ميں لپٹی ہو
تصوير غبار ميں لپٹی ہو
کہیں رشتے ٹوٹنے والے ہوں
یا اپنے چھوٹنے والے ہوں
جب ہر جانب ديواريں ہوں
اور پاؤں پڑی دستاريں ہوں
جب سچی بات پہ ہاتھ اٹھیں
پھر اٹھنے والے ہاتھ کٹیں
جب جھوٹ سے اصل بدل جائے
انصاف كى شكل بدل جائے
جب امن كى راہ نہ ملتى ہو
اور كہیں پناہ نہ ملتى ہو
کہیں ظلم كى آرى چلتی ہو
اور دلوں ميں نفرت پلتى ہو
كانٹوں سے بھرے جنگل ميں اگر
رنگوں كى سوارى جلتى ہو
ايسے ميں لہو كى خوش بو سے
من پھلوارى مہكا دينا
جہاں جيون سر خاموش ہو تم
آواز كے ديپ جلا دينا
جب سچ باتوں پر ہاتھ كٹیں
تم اپنا ہاتھ اٹھا دينا
جب كوئى نئى ديوار گرے
تم آنچل كو لہرا دينا
اور تيرہ شبى كے دامن ميں
اك ايسى آگ لگا دينا
جو نئى سحر كى آمد تك
اس دھرتى كى پيشانى سے
تاريكى كو بے دخل كرے
اور اندھياروں كو قتل كرے
۔۔۔۔۔۔
وہ سارے سمے جو بيت گئے
كيا ہار گئے كيا جيت گئے
جتنے دكھ سكھ كے ريلے تھے
ہم سب نے مل كر جھيلے تھے
تبصرے