ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کیا نمرود نے بابل میں جب دعوی خدائی کا
جہاں میں عام شیوہ ہو گیا جب خود ستائی کا
اندھیرا ہی اندھیرا کفر نے ہر سمت پھیلایا
تو ابراہیم کو اللہ نے مبعوث فرمایا
مٹا ڈالے بتوں کو توڑ کر اوہام مرسل نے
دیا بندوں کو پھر اللہ کا پیغام مرسل نے
کیا شیطان کو رسوا عدوِ جان و دیں کہہ کر
کیا سینوں کو روشن لا احب الآفلیں کہہ کر
مگر نمرود کو بھائیں نہ یہ باتیں بھلائی کی
کہ مسند چھوڑنی پڑتی تھی کافر کو خدائی کی
ہوا یہ بندۂ شیطان، خلیل اللہ کا دشمن
چراغِ حق بجھانے کو کیا آتش کدہ روشن
خلیل اللہ کو اس نے بھڑکتی نار میں ڈالا
مگر اللہ نے نمرود کا منھ کر دیا کالا
بروئے کار آیا آج پھر وہ نورِ پیشانی
ہوئی آگ ایک پل میں کوثر و تسنیم کا پانی
شاعر: ابوالاثر حفیظ جالندھری

تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

ہم کیسے مسلمان ہیں کیسے مسلمان

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے