ماورا فکر و تخیل سے ہے پیکر تیرا​

ماورا فکر و تخیل سے ہے پیکر تیرا​
کیسے اک جھیل میں اترے گا سمندر تیرا

تیری عظمت کے نشانات ہیں کتنے روشن​
تابعِ حکم ہے خورشیدِ منور تیرا

آمدِ صبح کا جب دیتی ہے پیغام صبا​
ذکر ہوتا ہے گلی کوچہ میں گھر گھر تیرا

ثبت ہے جس پہ ابراہیمؑ کی مہرِ تعمیر​
ہم نے سجدوں سے بسایا ہے وہ محور تیرا


مدح خواں تیرے ہیں پیغمبرؐ مکی مدنی​
کیوں نہ لیں نام وضو کر کے سخنور تیرا

صحنِ کعبہ میں کہیں نصب مجھے بھی کر دے​
سنگِ اسود بھی تِرا میں بھی ہوں پتھر تیرا

پھر شرف تجھ کو ملا دیدِ حرم کا راسخ​
اوجِ گردوں پہ چمکتا ہے مقدر تیرا

شاعر: راسخ عرفانی
از : ارمغانِ حرم
انتخاب : ناچیز 

تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

ہم کیسے مسلمان ہیں کیسے مسلمان

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے