خدا خاموش کب ہے؟
خدا
خاموش کب ہے؟
از
ڈاکٹر
صابر آفاقی
ندا
فاضلی کی نظم " خدا خاموش ہے" کے جواب میں
ندا صاحب
خداخاموش کب ہے؟
ندا دیتا رہا پہلے
ندا دیتا ہے وہ اب بھی
صدا دیتا ہے وہ اب بھی
خدا خاموش کب ہے
خدا تو بولتا ہے پر
ہمارے کان بہرے ہیں
کہ آوازیں نہیں سنتے
یہ ہم ہیں جو
یہاں خاموش رہتے ہیں
یہ ہم ہیں جو سدا مدہوش رہتے ہیں
جو سب نغموں کا، حرفوں کا،
جو سب لفظوں کا خالق ہے
اسے خاموش کہتے ہو؟
سبھی نغمے اسی کے ہیں
زبانیں ساری اس کی ہیں
بنوں میں ساری مہکاریں، سبھی چہکاریں اس کی ہیں
اسے خاموش کہتے ہو
(۲)
خدا کے کام تھے جتنے
وہ اس نے کر دیے سارے
کہ پھیلائی زمیں اس نے
درختوں کو اگایا ہے
پہاڑوں کو قرینے سے لگایا ہے
ستارے جڑ دئیے اس نے
یہ سارے کردئیے روشن
ہواؤں کو چلایا ہے
پرندوں کو عطا کی نغمگی اس نے
لبوں کو مسکراہٹ دی
سڑک پر "ڈولتی پرچھائیوں" کو زندگی دے دی
یہ سارے کام تھے اس کے
سو اس نے کر دئیے سارے
(۳)
بشر کے کام تھے جتنے
نہیں اک بھی ہوا اس سے
نہ نفرت دور کی اس نے
نہ محفل نور کی اس نے
نہ جنگوں کو مٹایا ہے
نہ فوجوں کو گھٹایا ہے
نہ سینے سے اچھوتوں کو لگایا ہے
نہ عورت کو حقوق اس نے دئیے اب تک
نہ مذہب کے تعصب کو مٹایا ہے
تعصب نے بشر کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے
ہر خطے میں رکھا ہے
نہ دہشت گردیوں میں کچھ کمی آئی
نہ جمہوری نظام آیا
نہ گردش میں وہ جام آیا
(۴)
ندا صاحب
خدا خاموش کب تھا؟
کبھی موسی سے بولا وہ
کرشنا سے کبھی عیسی سے بودھا سے
ہوا گویا
محمدؐ کے لبوں پر پھول بن کر مسکرایا وہ
ہمارے عہد میں ناطق ہوا وہ
جمالِ اقدس الہی کے پیکر میں
خدا تو بولتا ہے، بات کرتا ہے
نئی باتیں بتاتا ہے
بشر کو وہ جگاتا ہے
نیا رستہ دکھاتا ہے
نئی دنیا بساتا ہے
نیا قانون لاتا ہے
نئے گلشن کھلاتا ہے
نئی شمعیں جلاتا ہے
(۵)
ندا صاحب
خدائے لم یزل کی گر تم نے آواز سننی ہو
نئی دہلی میں جو معبد بنا ہے نیلوفر جیسا
گہر جیسا
کسی دن جا کے بیٹھو معبدِ نیلوفری میں تم
کنول کے پھول میں وہ بولتا ہے
بات کرتا ہے
سبھی نغمے اسی کے ہیں
زبانیں ساری اس کی ہیں
اسے خاموش کہتے ہو؟
اسے خاموش مت کہنا
تبصرے