صد شکر میرے خوابوں پہ تعزیر نہیں ہے
اب فـکر گـراں بـارئ زنـجـیــر نہیں ہے
لیکن یہ مرے خواب کی تعبیر نہیں ہے
اس شہر کی تقدیر میں لکھی ہے تباہی
وہ شـہر جہاں علم کی توقیـر نہیں ہے !
جانا تو ہمیں تھا مگر یوں تو نہیں تھا
دامـن سے كوئى ہاتھ عناں گیر نہیں ہے
اك درد سا پہلو میں جو رہتا ہے شب وروز
اس دل میں تـرازو تو کوئی تيــر نہیں ہے
صـد حیف خیالات کے اظہار پہ قـدغـن
صد شکر میرے خوابوں پہ تعزیر نہیں ہے
ان کھردرے دکھتے ہوئے ہاتھوں پہ لکھا ہے
تدبیـر تو ہاتھوں میں ہے تقدیـر نہیں ہے
اطہر قیوم
تبصرے