ترقی کے ہیں عنوانات اور پستی کے منظر ہیں
زباں
صدمے سے ہے خاموش ، آنکھیں میری پتھر ہیں
کبھی بازار
گھر سے دور تھے ، اب گھر کے اندر ہیں
کہاں تک
ارتقا کی بے لگامی دیکھ پائیں گے
ہم آزادی
کے دیوانے پر اپنی حد کے اندر ہیں
ہمارے ہاتھ
سے ٹوٹیں گے یہ بت نو تراشیدہ
صنم خانے
کا حصہ ہیں مگر ہم ابن آذرؑ ہیں
نہ پاسِ
ابن آدم ہے نہ حرمت بنت حوا کی
نشانِ بے
لباسی ہیں کہ آزادی کے پیکر ہیں ؟
ہمیں تو
پتھروں کا دور پھر محسوس ہوتا ہے
ترقی کے
ہیں عنوانات اور پستی کے منظر ہیں
شاعر:
فیصل عظیم
تبصرے