کسی کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دے مجھ کو
کسی
کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دے مجھ کو
ہزار غم دے مگر ان کا توڑ دے مجھ کو
کہیں نہ اور کوئی توڑ پھوڑ دے مجھ کو
کسی کڑی کا میں حصہ ہوں ، جوڑ دے مجھ کو
میں وہ سکوت ہوں جو مدتوں نہیں ٹوٹا
صدائے حشر اٹھے ، اٹھ کے توڑ دے مجھ کو
کیا ہے منصب دریا پہ جب مجھے فائز
سلگتے دشت کی جانب بھی موڑ دے مجھ کو
مرے مزاج کو سختی نہ راس آئے گی
جو موڑنا ہے سلیقے سے موڑ دے مجھ کو
غبارِ قلب کا چھٹنا بہت ضروری ہے
کبھی سسکتا ہوا بھی تو چھوڑ دے مجھ کو
کوئی تو اتنا ہنسے سسکیوں کے بیچ فراغ
کہ اس کے کرب کی شدت جھنجھوڑ دے مجھ کو
فراغ
روہوی
تبصرے