قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے کیفیتِ تسلیم و رضا اور ہی کچھ ہے دنیا میں بظاہر ہیں دئیے کتنے ہی رَوشن پر رُشدو ہدایت کا دِیا اور ہی کچھ ہے جسمانی و روحانی مرض اس سے ہیں جاتے اے صاحبو قرآں کی دوا اور ہی کچھ ہے کانوں کو بھلا لگتا ہے ہر حُسنِ تکلم قرآن کو پڑھنے کی ادا اور ہی کچھ ہے قرآن کی شِیرینی ہے شیرینی حقیقی شیرینی قرآں کا مزا اور ہی کچھ ہے قرآن ہے اِک رختِ سفر راہِ وفا کا سب راہوں میں اِک راہِ وفا اور ہی کچھ ہے قرآن جہاں بھر کی کتابوں سے جدا ہے رُتبے میں یہ اِک نورِ خدا اور ہی کچھ ہے شاعر: نامعلوم
درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا دل میں آیات اترتیں تو اجالا ہوتا نفرت و بغض کو سینوں میں نہ پالا ہوتا اپنے ہاتھوں سے نہ یوں خود کو مٹایا ہوتا یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا بن کے دستور حیات آیا جو انساں کے لیے نسخہ کیمیا ہر درد کے درماں کے لیے رب کے احکام سے دامن نہ چرایا ہوتا یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا تھاما قرآں تو کیے قیصر و کسری نابود اس سے منہ پھیر کے خطرے میں ہے امت کا وجود درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا
سورۃ یوسف آیت 3 میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَ ـ ٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ ﴿ ٣ ﴾ یہاں احسن القصص کا ترجمہ بہت سے اردو مترجمین نے اچھا قصہ یا بہترین قصہ کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ غلط فہمی عام ہوتی جا رہی ہے کہ "حضرت یوسف کی کہانی سب سے بہترین کہانی ہے"۔ اردو میں اس آیت کا سب سے درست ترجمہ جو مجھے ملا، مولانا محمد جونا گڑھی رحمہ اللہ کا ہے جو لکھتے ہیں: "ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبروں میں سے تھے ۔" یعنی احسن القصص کا مطلب ہے بہترین بات، سب سے اچھا بیان۔ یہ ترجمہ امام ابن تیمیہ سمیت کئی مفسرین کی اس رائے کے عین مطابق ہے جس میں انہوں نے واضح فرمایا ہے کہ احسن القصص کی تفسیر ایک دوسرے قرآنی مقام سے کی جائے گی جہاں اسے احسن الحدیث کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب اچھا قصہ سمجھنے والے اسے زیر سے قِص...
کل ایک بہت عزیز بہن نے سوال کیا کہ جزاک اللہ خیرا کا کیا جواب ہے اور کیا اس کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟ یوں تو اس کے کافی دلائل ہیں لیکن جلدی میں اس کے کچھ دلائل یہاں ربط سمیت فراہم کر رہی ہوں ۔سوال کرنے والی بہن سے معذرت کہ تمام فتاوی کا اردو ترجمہ مصروفیت کی وجہ سے ممکن نہیں۔ ڈاکٹر عبدالمحسن بن حمد العباد کا فتوی " جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنے میں کوئی حرج نہیں اس کا مطلب ہے آپ کو بھی اللہ جزا دے۔ یہ درست بات ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ " حوالہ : http://ar.islamway.net/fatwa/33045/ حكم-قول-وإياك-للقائل-جزاك-الله-خيرا شیخ عبدالرحمن بن عبداللہ السحیم کا تفصیلی فتوی جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ وایاک کہنا بدعت نہیں۔ http://www.almeshkat.net/vb/showthread.php?t=137692 مزید: http://majles.alukah.net/t109856/
کیا نمرود نے بابل میں جب دعوی خدائی کا جہاں میں عام شیوہ ہو گیا جب خود ستائی کا اندھیرا ہی اندھیرا کفر نے ہر سمت پھیلایا تو ابراہیم کو اللہ نے مبعوث فرمایا مٹا ڈالے بتوں کو توڑ کر اوہام مرسل نے دیا بندوں کو پھر اللہ کا پیغام مرسل نے کیا شیطان کو رسوا عدوِ جان و دیں کہہ کر کیا سینوں کو روشن لا احب الآفلیں کہہ کر مگر نمرود کو بھائیں نہ یہ باتیں بھلائی کی کہ مسند چھوڑنی پڑتی تھی کافر کو خدائی کی ہوا یہ بندۂ شیطان، خلیل اللہ کا دشمن چراغِ حق بجھانے کو کیا آتش کدہ روشن خلیل اللہ کو اس نے بھڑکتی نار میں ڈالا مگر اللہ نے نمرود کا منھ کر دیا کالا بروئے کار آیا آج پھر وہ نورِ پیشانی ہوئی آگ ایک پل میں کوثر و تسنیم کا پانی شاعر: ابوالاثر حفیظ جالندھری
گزشتہ دنوں خلیفہ عبدالحکیم کے مجموعہ کلام "کلامِ حکیم" کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ خوب صورت حمد نظر سے گزری تو اسے بیاض کے لیے لکھ ڈالا۔ میرے ابو جان فارسی کا یہ شعر اکثر پڑھا کرتے ہیں۔ خالقِ کونین وہ ربِ قدیر جس نے بچپن میں بہائی جوئے شِیر چھوڑ دے کیوں حاجتِ برنا و پیر کیا نہیں وہ حال کا میرے خبیر "کار ساز ِ ما بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما درکارِ ما آزارِ ما" مور سے لے کر ملائک تک کا رب ایک دم غافل نہیں جو روزوشب ہے سپرد اس کے یہ نظم ونسق سب بدگمانی ہے یہاں ترکِ ادب "کار ساز ِ ما بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما درکارِ ما آزارِ ما" جو خزاں کے بعد لاتا ہے بہار خیر میں ہے صرف جس کا اختیار چاہے تو صحرا کو کردے لالہ زار کافرِ نعمت ہے جو ہو سوگوار "کار ساز ِ ما بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما درکارِ ما آزارِ ما" اس کے آگے کیا ہے میری احتیاج جو کرے سارے جہاں کا کام کاج ذرے ذرے میں ہے قائم جس کا راج دکھ دیا جس نے وہی دے گا علاج "کار ساز ِ ما بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما درکارِ ما آزارِ ما" ڈر نہ طوفاں سے کہیں ساحل بھی ہے ہر رہِ دشوار کی منزل بھی ہے کشتِ محنت کا کہی...
ہے خوف خدا دل ميں نہ تو غيرت ايمان ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ دنيا كى ہميں فكر ہے عقبى كا نہیں دھيان ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ ہم صرف سنا كرتے ہیں مسجد كى اذانيں ہوتى ہی نہیں ہم سے ادا پانچ نمازيں آباد ہمارے ہیں مكان ، مسجديں ويران ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ مايوس نظر آتے ہیں مسجد كے منارے آتا ہی نہیں كوئى مؤذن كے پكارے منبر پر ہے خاموشى تو محراب ہیں سنسان ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ دنيا كى خرافات ميں مغرور ہوئے ہیں ہم لوگ تلاوت سے بہت دور ہوئے ہیں گھر گھر نظر آتے ہیں طاقوں ميں قرآن ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ ہونٹوں پہ نہیں اب ہیں دين كے ترانے ذہنوں ميں گونجتے ہیں فقط فلموں كے گانے شيطان كے پابند ہوئے آج مسلمان ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ كيا سنت سركار (ص) ہميں ياد نہیں ہے؟ اصحاب كا كردار ہميں ياد نہیں ہے؟ اب دل ميں كہاں جذبہ ء فاروق وعثمان؟ ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ رسم و رواج ميں سب انسان ہیں ڈوبے دولت كى فراونى ميں ال...
امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو انسانوں کی اس نگری میں انسانوں سے پیار کرو آگ کے صحراؤں سے گزرو، خون کے دریا پار کرو جو رستہ ہموار نہیں ہے، اس کو بھی ہموار کرو دین بھی سچا تم بھی سچے، سچ کا ہی اظہار کرو تاریکی میں روشن اپنی عظمت کے مینار کرو نفرت کے شعلوں کو بجھا دو، پیار کی ٹھنڈی شبنم سے ہم دردی کی فصل اگاؤ، صحرا کو گل زار کرو سچے روشن حرف لکھو، یہ ظلمت خود کٹ جائے گی اپنے قلم کو تِیشہ کر لو، لہجے کو تلوار کرو عزت، عظمت، شہرت یارو دامن میں اسلام کے ہے وقت یہی ہے سنگ زنوں کو آئینہ کردار کرو دنیا ہو یا دین کی منزل یکجہتی سے ملتی ہے وحدت کا پیغام سنا کر ذہنوں کو بے دار کرو انساں کو راحت نہ ملے گی، دنیا بھر کے "ازموں" سے اس دنیا میں نافذ لوگو حکم شہ ابرارﷺ کرو سرخ سمندر والی لہریں دور بہا لے جائیں گی ہوش میں آؤ سبزہلالی پرچم کو پتوار کرو سورج بننا مشکل ہے تو جگنو ہی بن جاؤ تم بھائی ہو تو بھائی کی خاطر اتنا تو ایثار کرو کچھ تو اپنے ہمسائے سے پیار کا رشتہ رہنے دو اعجاز اپنے گھر کی اونچی اتن...
سارے لفظوں میں ایک لفظ یکتا بہت اور پیارا بہت سارے ناموں میں اک نام ﷺ سوہنا بہت اور ہمارا بہت اس کی شاخوں پہ آ کر زمانوں کے موسم بسیرا کریں اک شجر ﷺ جس کے دامن کا سایا بہت اور گھنیرا بہت ایک آہٹ کی تحویل میں ہیں اس زمیں آسماں کی حدیں ایک آواز دیتی ہے پہرا بہت اور گہرا بہت جس دیے کی توانائی ارض و سما کی حرارت بنی اس دیے ﷺ کا ہمیں بھی حوالہ بہت اور اجالا بہت میری بینائی اور مرے ذہن سے محو ہوتا نہیں میں نے روئے محمد ﷺ کو سوچا بہت اور چاہا بہت میرے ہاتھوں اور ہونٹوں سے خوشبو جاتی نہیں میں نے اسم محمد ﷺ کو لکھا بہت اور چوما بہت شاعر: سلیمؔ کوثر
ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے یہاں اسلام کا پرچم کبھی جھکنے نہیں دیں گے يہ ارض پاك ہے مسكن فدايان محمدﷺ كا كوئى قانون باطل كا يہاں چلنے نہیں دیں گے ہزاروں سازشيں کر لو اے مغرب کے پرستارو شہیدوں کی وراثت کو کبھی لٹنے نہیں دیں گے دلوں سے دین كى الفت مٹائى جا نہیں سكتى محبت غير كى سينوں ميں ہم بسنے نہیں ديں گے ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے یہاں اسلام کا پرچم کبھی جھکنے نہیں دیں گے شاعر:نامعلوم
تبصرے