انقلاب آیا
کبھی
جو روپ بدل کر نیا عذاب آیا
تو سادہ لوح یہ سمجھے کہ انقلاب آیا
یہ جانا تشنہ لبوں نے کہ اب کے آب آیا
قدم سراب سے نکلے تو پھر سراب آیا
ورودِ حشر میں اب دیر کس لیے اتنی
کہ زندگی ہی میں جب سر پہ آفتاب آیا
جو چور خود ہو کرے گا محاسبہ کیوں کر
کہا ہے کس نے کہ اب دور احتساب آیا
تمام عمر کٹی اپنی اس طرح کاوِش
کہ اک عذاب ٹلا دوسرا عذاب آیا
شاعر: محمود کاوش
تبصرے