دائیں اور بائیں بازو کے چہیتوں کی گمشدگی
کچھ سال پہلے سوشل میڈیا پر دائیں اور بائیں بازو کے انتہاپسندوں کو دیکھ کر خیال آتا تھا کہ " پاکستانمیں بہت ہی زیادہ آزادی ہے"۔
اللہ کا شکر ہے کہ 2015 تا 2016 میں ریاست کے ادارے کچھ جاگتے ہوئے نظر آئے، دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی، اہل وطن نے بہت عرصے بعد ایک پرامن موسم سرما کا لطف اٹھایا۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر فسادیوں اور ملحدوں (دشمنان وطن و دشمنان دین) کی ویب سائٹس کا زور بھی کچھ کم ہوا۔ البتہ آج کل ایک نئی پراسرار لہر نے کئی لوگوں کو ٹھٹھرا کر رکھ دیا ہے۔ یہ لہر ہے گمشدگیوں کی۔
دائیں بازو کے لوگ ہوں یا بائیں بازو کے اپنے اپنے چہیتوں کی گمشدگی کی شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ افسوس کیا جا رہا ہے کہ صرف بات کرنے پر لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افسوس ان پر ہے جو بات کرنے کا سلیقہ نہیں جانتے۔ جو لوگ سوچتے ہیں کہ وہ کسی وطن میں رہیں، اور اس کی سرحدیں گرانے کی دعوت بھی دیں، اس کے محافظوں کا مذاق اڑائیں، ان کی قربانیوں پر انگلیاں اٹھائیں، یا جو سمجھتے ہیں کہ وہ خود کو ایک دین کا نام لیوا ظاہر کریں اور پھر اس کے قوانین کے متعلق ہفوات بکیں، اس کی مقدس ہستیوں کی توہین کریں، وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آزادی اظہار کی ایک حد ہوتی ہے؟ دنیا کے ہر مذہب اور ہر وطن میں غداری ایک جرم ہے۔ اہل قلم کا کمال یہ نہیں کہ وہ آگ لگا دیں۔ اہل قلم کا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کو پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل پر حد میں رہ کر بات کرنا سکھائیں۔ اخلاص، قربانی، تدریج اور مستقل مزاجی کے بغیر کسی معاشرتی انقلاب کی امید لگانا بے کار ہے۔
تبصرے