اشاعتیں

اکتوبر, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

گزشتہ دنوں خلیفہ عبدالحکیم کے مجموعہ کلام "کلامِ حکیم" کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ خوب صورت حمد نظر سے گزری تو اسے بیاض کے لیے لکھ ڈالا۔ میرے ابو جان فارسی کا یہ شعر اکثر پڑھا کرتے ہیں۔ ​ خالقِ کونین وہ ربِ قدیر جس نے بچپن میں بہائی جوئے شِیر چھوڑ دے کیوں حاجتِ برنا و پیر کیا نہیں وہ حال کا میرے خبیر "کار ساز ِ ما بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما درکارِ ما آزارِ ما" مور سے لے کر ملائک تک کا رب ایک دم غافل نہیں جو روزوشب ہے سپرد اس کے یہ نظم ونسق سب بدگمانی ہے یہاں ترکِ ادب "کار ساز ِ ما بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما درکارِ ما آزارِ ما" جو خزاں کے بعد لاتا ہے بہار خیر میں ہے صرف جس کا اختیار چاہے تو صحرا کو کردے لالہ زار کافرِ نعمت ہے جو ہو سوگوار "کار ساز ِ ما بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما درکارِ ما آزارِ ما" اس کے آگے کیا ہے میری احتیاج جو کرے سارے جہاں کا کام کاج ذرے ذرے میں ہے قائم جس کا راج دکھ دیا جس نے وہی دے گا علاج "کار ساز ِ ما بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما درکارِ ما آزارِ ما" ڈر نہ طوفاں سے کہیں ساحل بھی ہے ہر رہِ دشوار کی منزل بھی ہے کشتِ محنت کا کہی