اشاعتیں

اپریل, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
دل در سخنِ محمدی بند اے پورِ علی ز بو علی چند چوں دیدہ ء راہ بیں نداری قاید قرشی بہ از بخاری اے اولاد علی ( خلیفہ راشد حضرت علي رضي اللہ عنہ ) تو کب تک بوعلی (سینا) کے فلسفے سے چمٹا رہے گا ؟ تو اپنا دل سخن محمدی ــــ حدیث رسول ــــ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے لگا ۔ چونکہ تیرے پاس راستہ پہچاننے والی آنکھ نہیں ، اس لیے کسی بخاري( بوعلی سینا) کوراہبر بنانے سے بہتر ہے کہ قریشی ( صلى اللہ عليہ وسلم ) کو راہنما بنا ۔ فارسی شاعرافضل الدین خاقانی کی مثنوی تحفہ العراقین کے ان اشعار کو اقبال نے اپنی نظم ’ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام ‘ کے آخر میں شامل کیا ہے ۔

ورفعنا لک ذکرک

تصویر
تیرے تیور، میرا زیور تیری خوشبو، میری ساغر تیرا شیوہ، میرا مسلک ورفعنا لک ذکرک میری منزل، تیری آہٹ میرا سدرہ ، تیری چوکھٹ تیرا صحرا، میرا پنگھٹ ورفعنا لک ذکرک میں ازل سے تیرا پیاسا نہ ہو خالی میرا کاسہ تیرے صدقے تیرا بالک ورفعنا لک ذکرک تیرے دم سے دل بِینا کبھی کعبہ کبھی سِینا نہ ہو کیوں پھر تیری خاطر... میرا مرنا، میرا جینا ؟ ورفعنا لک ذکرک ***** مظفر وارثی

The man who wins .....

تصویر
If you think you are beaten, you are;  If you think you dare not, you don't. If you like to win, but think you can't it's almost a cinch you won't!  ***** If you think you'll lose, you are lost; for out in the world we find Success begins with a fellow's will; it's all in the state of mind. ****   If you think you are outclassed you are; you've got to think high you rise, you've got to be sure of yourself before you can win the prize!  **** Life is battle don't always go to the stronger or faster man; but sooner or later the man who wins is the man who thinks he can!  ********** by Walter D. Wintle

صد شکر میرے خوابوں پہ تعزیر نہیں ہے

تصویر
اب فـکر گـراں بـارئ زنـجـیــر نہیں ہے لیکن یہ مرے خواب کی تعبیر نہیں ہے اس شہر کی تقدیر میں لکھی ہے تباہی وہ شـہر جہاں علم کی توقیـر نہیں ہے ! جانا تو ہمیں تھا مگر یوں تو نہیں تھا دامـن سے كوئى ہاتھ عناں گیر نہیں ہے اك درد سا پہلو میں جو رہتا ہے شب وروز اس دل میں تـرازو تو کوئی تيــر نہیں ہے صـد حیف خیالات کے اظہار پہ قـدغـن صد شکر میرے خوابوں پہ تعزیر نہیں ہے ان کھردرے دکھتے ہوئے ہاتھوں پہ لکھا ہے تدبیـر تو ہاتھوں میں ہے تقدیـر نہیں ہے اطہر قیوم

نظارہ کرنے والوں کو نظارہ بننے میں کتنی دیر لگے گی؟

ميرے جسم كے خوں آلودہ ٹکڑے گلى گلی ميں بكھرے ہیں پتھر كى آنكھوں ميں سيل اشك چھپائے۔۔ پتھر کے دل اپنی چنگاری كو دبائے دور سے محو نظارہ ہیں ۔۔۔ میرے جسم کے زندہ ٹکڑے پوچھ رہے ہیں نظارہ کرنے والوں کو ۔۔۔ نظارہ بننے میں کتنی دیر لگے گی؟ ميرے قاتل زندہ و آزاد ہیں اب تک مختار كريمى

چلتا پھرتا نظر آتا ہوا قرآں تو ہے !

تصویر
 نعت نبي كريم صلى الله عليه وسلم احمد نديم قاسمى اس خدا سے كيسے ہو مجھے مجالِ انكار ؟ جس کے شہ پارہ ء تخليق كا عنواں تو ہے ! تيرا كردار ہے احكامِ خدا كى تائيد چلتا پھرتا نظر آتا ہوا قرآں تو ہے ! ميرے نقاد كو شايد ابھی معلوم نہیں ميرا ايماں ہے مكمل، ميرا ايماں تو ہے

قصيدة _ انتظار، من الشعر الأردي المعاصر

تصویر
___________1___________   عيوننا من الانتظار تحجرت ورؤوسنا كقمم الثلوج تجمدت ولا يزال الخضر المنتظر ممتطياً صهوة جواد كالبرق الخاطف متوارياً خلف الغبار فشعاع ذلك النجم البعيد لم يصلنا إلى الآن ضوؤه ____________2____________   ونحن في صراعاتنا مستغرقون وسرطان أنانيتنا ووثنيتنا قضى على كل جوهر بداخلنا ولا نزال نعقد الآمال على مجيئ " طارق " .... أو " غازي " على مجيئ " أيوبيّ العصر والأوان " أو فاتح أو سلطان   ___________3___________   كم من قرون أضعناها في هذا الوهم أبداً ما فكّرنا ... أبداً ما استوعبنا ... أن زمن العصا السحرية ، واليد البيضاء ... قد انتهى منذ عهد بعيد ... تلك العصا التي كانت تنطق الصلد من الأحجار ... أبداً لن تعود .. *** لم يخطر ببالنا ... كم هي ضعيفة واهية ... دنيا الأغنام ... حيث تفضل الأسود الضارية ... العشب على اللحوم النيئة ... في هذه الدنيا ... تنضج الأفكار السيئة .... منذ متى سقطت أسناننا .....؟ ولم تعرف بذلك أفواهنا المتهدّل *** وقيمنا ... " إذ كنا نحرق سفننا " ... ضلّت طريقها ...

انتظار

انتظار   تحسین فراقی ہماری منتظر آنکھیں تو پتھر ہو گئیں اور سر ہمارے ـــــــــــــ برف کے گالے مگر ابھی تک سمندِ برق پیما پر سوار خضر صورت گرد میں گم ہے ۔۔۔ ابھی اس انجمِ دور افتادہ کی کوئی کرن ہم تک نہیں پہنچی ! ــــــــــــــــ 2 ــــــــــــــــــ یہاں بس اپنی دستاروں کے جھگڑے ہیں ہمارے جوہرِذاتی کو سرطاں کھا چکا خود پروری کا ، خود پرستی کا اور اس پر یہ امیدیں ہیں ـــ کوئی طارق ، کوئی غازی ، کوئی ایوبئ دوراں ، کوئی سلطاں کوئی فاتح ، یقینا اب بھی آئے گا !!! اسی امید پر ہم نے کئی صدیاں گنوا دیں ! یہ سوچا ہی نہیں ہم نے ، یہ سوجھا ہی نہیں ہم کو ۔۔۔ یدِ بیضا ، عصائے موسوی کا دور کب کا ہو چکا ! وہ جس کے ہاتھ میں بے جان پتھر بولتے تھے ۔۔۔ اب نہ آئے گا ! یہ سوچا ہی نہیں ہم نے کہ بزوں اور بزغالوں کی دنیا کس قدر کمزور دنیا ہے ؟ جہاں پر شیر کچا ماس کھانے کی بجائے گھاس کھانے کو ترجیح دیتے ہوں وہیں ایسے خیالِ خام پکتے ہیں ! ہمارے دانت کب کے گِر چکے اور ہمارے پوپلے مونہوں کو اب تک کچھ خبر ہونے نہیں

اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو !

اب تو چہروں کے خدو خال بھی پہلے سے نہیں کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤ گے ؟ خواب گاہوں سے نکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو ؟ دھوپ اتنى تو نہیں كہ پگھل جاؤ گے ! اپنے مركز سے اگر دور نكل جاؤ گے خواب ہو جاؤ گے ، افسانوں میں ڈھل جاؤ گے ! اپنے پرچم کے کہیں رنگ بھُلا مت دینا سُرخ شعلوں سے جو كھيلو گے تو جل جاؤ گے دے رہے ہیں لوگ تو تمہیں رفاقت کا فريب ان كى تاريخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے !!! اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو ! سنگ ِ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے ! تيز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو بھِیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤ گے ! ہم سفر ڈھونڈو اور نہ رہبر کا سہارا چاہو ٹھوکریں کھاؤ گے تو خود ہی سنبھل جاؤ گے ! تم ہو اک زندہ جاوید روایت کے چراغ ! تم کوئی شام كا سورج ہو کے ڈھل جاؤ گے ؟ احمد نديم قاسمى_