اشاعتیں

ستمبر, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دعائیہ

تو کرم کیش ہے تقصیر وخطا کام مرا تیری بخشش سے ہے کم ظرف مِرا ،جام مِرا محوِ حیرت ہوں کروں کیسے مخاطب تجھ کو کج ہیں الفاظ مِرے ، طرزِ سُخن خام مِرا حج کے میداں میں بھی ہوں شر م سے پانی پانی گرد آلود گناہوں سے ہے  احرام  مِرا لاکھ محتاط چلا ہوں میں تری راہوں میں  پھر بھی لرزیدہ رہا عزم بہرگام مرا اپنی رحمت کے سحابوں میں چھپا لینا مجھے جب کھلے نامہء اعمال سرِ عام مرا روزِ محشر جو حوالوں سے پکارا جائے  تیرے محبوب ﷺکے خدّام میں ہو نام مرا عِجز سے بار گہہِ حق میں  دعا  ہے راسخ ؔ دہر سے اٹھوں تو بالخیر ہو انجام مِرا راسخ عرفانی   از مجموعہءکلام: نکہتِ حرا

مسئلہ قادیانیت پر سٹیٹسمین کے جواب میں۔ علامہ محمد اقبال کی ایک تاریخی تحریر

مسئلہ قادیانیت پر سٹیٹسمین کے جواب میں تحریر: علامہ محمد اقبال   ​ (اخبار سٹیٹسمین،{دہلی} نے اپنی ۱۴ مئی ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں حضرت علامہ کا بیان ، قادیانی   اور جمہور مسلمان شائع کیا اور ساتھ ہی اس پر ایک تنقیدی اداریہ بھی لکھا ۔ اقبال رحمہ اللہ کا یہ مضمون دراصل اسی اداریہ کا جواب ہے جو ۱۰ جون ۱۹۳۵ء کو اخبار مذکور میں طبع ہوا۔) ​ میرے بیان مطبوعہ ۱۴ مئی پر آپ نے تنقیدی اداریہ لکھا ، اس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں ۔ جو سوال آپ نے اپنے مضمون میں اٹھا یا ہے وہ فی الواقعہ بہت اہم ہے اور مجھے مسرت ہے کہ آپ نے اس سوال کی اہمیت کو محسوس کیا ہے ۔ میں نے اپنے بیان میں اسے نظر انداز کر دیا تھا کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ قادیانیوں کی تفریق کی پالیسی کے پیش نظر جو انہوں نے مذہبی اور معاشرتی معاملات میں ایک نئی نبوت کا اعلان کر کے اختیار کی ہے خود حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں اور مسلمانوں کے بنیادی اختلافات کا لحاظ رکھتے ہوئے آئینی اقدام اٹھائے اور اس کا انتظار نہ کرے کہ مسلمان کب مطالبہ کرتے ہیں اور مجھے اس احساس میں حکومت کے سکھوں کے متعلق رویہ سے اور بھی تقویت ملی۔ سکھ ۱۹۱۹ ء تک آئین

علامہ اقبال کے حضور

علامہ اقبال کے حضور  تحریر: پروفیسر حکیم   عنایت اللہ نسیم سوہدروی علیگ مارچ۲۷ ء کا وہ دن میری زندگی کا ایسا دن تھا جس کی چاندنی آج بھی میرے محسوسات کو جگمگائے ہوئے ہے ۔ یہ وہ دن تھا جب مجھ ایسے ہیچمدان کو زندگی میں پہلی بار نابغہءروزگار حکیم الامت علامہ اقبال کے حضور حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ راقم ان دنوں علی گڑھ   مسلم یونیورسٹی   طبیہ کالج   میں زیر تعلیم تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملتِ اسلامیہ کے دلوں میں قادیانیوں کے دل آزار و خود ساختہ معتقدات اور ان کی ژاژ خائیوں کے باعث اشتعال وبیزاری کا ایک طوفان برپا تھا اور پورے برعظیم میں نفرت کی فضا تھی ۔ پنجاب میں انجمن حمایتِ اسلام لاہور  نے اپنے ایک اجلاس میں جو علامہ اقبال رح کی صدارت میں ہوا باضابطہ اعلان کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر انجمن کے اداروں سے الگ کر دیا تھا ۔ پنجاب کے بعد علی گڑھ میں بھی طلبہ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردینے اور الگ کرنے کا مطالبہ کر رکھا تھا اور اس سلسلے میں مولانا ظفر علی خان   اور سید عطاءاللہ شاہ  بخاری جیسی قومی شخصیات کی تقاریر یونیورسٹی میں گونج چکی تھیں ۔ طلبہ میں زبردس

فکرِ اقبال اور قادیانی تحریک​

فکرِ اقبال   اور قادیانی   تحریک ​ تحریر :  علیم ناصری رحمہ اللہ ، مدیر الاعتصام  ​ ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں انگریز فاتح کی حیثیت سے مختارِکل بن گیا ۔ اس نے مغل سلطنت کے تاروپود بکھیر دِیے اور ہندو ریاستوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا ۔اس کو مسلمان قوم سے بہرحال خطرہ درپیش تھا کیوں کہ اس قوم میں جذبہء جہاد   کسی بھی وقت ابھر آنے کی توقع تھی۔ اس لیے اس نے اس کے فکری محاذ اور دینی عقائد پر ضربِ کاری لگانے کی ڈپلومیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور انگلستان اور دیگر یورپی ممالک سے عیسائی مشنری  [مبلغین اور دانشور] یہاں درآمد کرنے شروع کیے۔ یہی وہ صورتِ حال تھی جس پر اکبرالہ آبادی مرحوم نے کہا تھا ۔۔ ​ توپ   کھسکی پروفیسر پہنچے اب بسولا   ہٹا تو رندا ہے ​ یعنی حرب و ضرب [توپ و تفنگ] کے سامان کے بعد تعلیم و تبلیغ کے ہتھیار سے کام لینے کا وقت آ گیا۔ بسولا یعنی تیشہ کو سامانِ حرب سے تشبیہ دی ہے اور رندا کو تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ہموار کرنے کے عمل کے لیے بطورِاستعارہ استعمال کیا گیا ہے ۔ ​ ان مشنریوں کے مقابلے میں مقامی علمائے اسلام بھی میدان میں اترے جن میں سوئے اتفاق س

استشراق کے متعلق اقبال کے تاثرات

پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ   مشہور مستشرق اور فلسفے میں اقبال   کے استاد تھے ۔ سید نذیر نیازی   نے ایک جگہ آرنلڈ کی وفات کے بعد ہونے والی گفتگو کا یوں ذکر کیا ہے : " ۱۷ کی صبح کو میں لاہور پہنچا ۔ حضرت علامہ ایک طرح سے منتظر ہی تھے ۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو اول ڈاکٹر انصاری مرحوم اور غازی موصوف کی خیریت مزاج دریافت کرتے رہے ، پھر احباب جامعہ بالخصوص ذاکر صاحب، عابد صاحب اور مجیب صاحب کا پوچھا ۔ باتوں باتوں میں ترکوں اور ترکی سیاست کا ذکر آ گیا اور پھر اس سلسلے میں نہ معلوم کس طرح اس روز کے اخبار کا ۔ میں نے عرض کیا آرنلڈ کاتو آپ نے سن ہی لیا ہو گا۔ متعجب ہو کر فرمایا: کیا؟ میں نے کہا صبح کے اخبار میں ان کے انتقال کی ۔۔۔ بس اتنا کہنا تھا کہ حضرت علامہ کی آنکھیں اشکبا ر ہو گئیں اور پھر سر جھکا کر چند لمحے خوب روئے ۔ یوں ان کے دل کا بخار ہلکا ہوا تو فرمایا : Iqbal has lost his friend and teacher. اقبال اپنے استاد اور دوست سے محروم ہو گیا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اتنے گہرے روابط اور تعلقِ خاطر کے باوجود جب میں نے آرنلڈ کے مرتبہء استشراق   اور اسلام سے اس کی عقیدت کا ذکر چھیڑا تو فر

سخن کا فائدہ کوئی نہیں ہے

سخن کا فائدہ کوئی نہیں ہے  کسی کی مانتا کوئی نہیں ہے  خلوص اک لفظ شرمندہء معنی  ریا کی انتہا کوئی نہیں ہے  یہ کیسی صبح کاذب ہے کہ جس میں  صداقت کی صدا کوئی نہیں ہے  حقیقت کس سے پوچھیں کیا بتائیں  کہ سچ تو بولتا کوئی نہیں ہے سبھی ہم بند گلیوں میں کھڑے ہیں  بتاتا راستا کوئی نہیں ہے نجانے کب کھلے گا بند موسم  کسی کو کچھ پتا کوئی نہیں ہے قفس کوتوڑنا پڑتا ہے صاحب  قفس کو کھولتا کوئی نہیں ہے چمن ہو گا تو ہوں گے آشیانے  مگر یہ مانتا کوئی نہیں ہے ہم ایسے قافلے کے راہرو ہیں  کہ جس کا راہرو کوئی نہیں ہے  خدا کے ماننے والے بہت ہیں  خدا کی مانتا کوئی نہیں ہے ​ خورشیدانور رضوی 

انقلاب آیا

کبھی جو روپ بدل کر نیا عذاب آیا  تو سادہ لوح یہ سمجھے کہ انقلاب آیا  یہ جانا تشنہ لبوں نے کہ اب کے آب آیا  قدم سراب سے نکلے تو پھر سراب آیا ورودِ حشر میں اب دیر کس لیے اتنی  کہ زندگی ہی میں جب سر پہ آفتاب آیا جو چور خود ہو کرے گا محاسبہ کیوں کر کہا ہے کس نے کہ اب دور احتساب آیا تمام عمر کٹی اپنی اس طرح کاوِش کہ اک عذاب ٹلا دوسرا عذاب آیا ​  شاعر: محمود کاوش 

زہر آلود

تمام سنگلاخ زمینوں میں  محبت کے بیج بونے والے اپنے لہو سے  اپنے وطن اپنے شہر کو  سینچتے ہیں  اور اس میں  رنگ برنگے  پھول سجاتے ہیں  لیکن یہ بھی سچ ہے  کہ کچھ لوگ  ان کی محنت کو  پل بھر میں ضائع کر دیتے ہیں  اور ہنستے گاتے موسم کو  زہرآلود کر دیتے ہیں  سیفی سرونجی ،سرونج بھارت 

زندہ جاوید ​

زندہ جاوید  ​ ​ قائد اعظم کی وفات پر سید ضمیر جعفری  ​ ​ ہمارے دل میں جب تک شعلہء ایقان زندہ ہے ​ ہمارا عہد محکم عزم عالی شان زندہ ہے ​ ہمارا دین زندہ دین پرایمان زندہ ہے ہماری زندگی آزاد پاکستان زندہ ہے ​ ہمارا قائداعظم بہر عنوان زندہ ہے ​ جو منزل اس نے سر کی اور کوئی کر نہیں سکتا دلوں میں اتنا اطمینان کوئی بھر نہیں سکتا ​ یہ کیسے مان لوں وہ مر گیا جو مر نہیں سکتا وہ رُوحِ پاک زندہ وہ عظیم انسان زندہ ہے ​ ہمارا قائداعظم بہر عنوان زندہ ہے ​ وہ طوفانوں سے الجھا اور ساحل دے گیا ہم کو وہ محفل دے گیا ، سامانِ محفل دے گیا ہم کو ​ خود اپنی آگ میں پگھلا ہوا دل دے گیا ہم کو ​ یہ جذبِ بیکراں طوفان در طوفان زندہ ہے ​ ہمارا قائداعظم بہر عنوان زندہ ہے ​ اجل بس اس کے جسمِ ناتو اں کو چھین سکتی ہے ​ فنا کی موج ، مشتِ استخواں کو چھین سکتی ہے ​ مگر کب اس کے جذبِ بیکراں کو چھین سکتی ہے ​ یہ جذبِ بیکراں طوفان در طوفان زندہ ہے ​ ہمارا قائداعظم بہر عنوان زندہ ہے