اشاعتیں

دسمبر, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

رزق کی بےحرمتی اور ہماری ذمہ داری

کچھ دن پہلے ایک تقریب میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ تعلیم یافتہ لوگوں کا اجتماع تھا۔ ظہرانے کے وقفے میں بہت اچھے لوگوں سے ملاقات ہوئی لیکن افسوس ذرا دیر بعد رزق   کی جو بے حرمتی ہوتی دیکھی بیان سے باہر ہے۔یہاں تک کہ  رزق زمین پر گرگیا اور گزرنے والے اس پر پاؤں رکھ کر گزرتے رہے۔مجھے دعوت پر جانا اسی لیے برا لگتا ہے کہ لوگ عجیب طریقے سے پلیٹ بھر لیتے ہیں پھر نہ کھاتے ہیں نہ کسی اور کے استعمال کے قابل  رہنے دیتے ہیں۔ایسے منظر دیکھ کر کئی دن تک دل خراب رہتا ہے۔ عام شادی بیاہ پر ایسا ہو تو سمجھ آتا ہے کہ تقریب میں ہر عمر اور طبقے کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ لیکن تعلیم یافتہ لوگ بھی اگر طلب سے زیادہ کھانا نکال کر ضائع کریں تو دکھ کے مارے سمجھ نہیں آتی کیا کیا جائے۔ تعلیم تو شعور   دیتی ہے۔ کیا ایک باشعور انسان کو  معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کتنی طلب ہے اور اس کی پلیٹ میں کیا اضافی ہے؟ میرا جی چاہ رہا تھا کہ ان لوگوں کو دنیا کے قحط زدہ علاقوں کی تصویریں دکھاؤں تا کہ ہمیں رزق کے ہر لقمے کی قیمت کا احساس ہو۔ جو کھانا پیروں تلے آ کر ضائع ہوا اس سے بلاشبہ کئی انسانوں کی بھوک مٹائی جا سکتی تھی۔ اسی طرح دنیا کی کئی

خدا تک رسائی رکھنے کے دعوے دار ملا

دنیاوی خائن دنیاوی منصبوں پر قابض ہیں، دینی خائن دینی مسندوں کے لازمی مستحق ہیں، مسجد کا منبر خاندانی ورثہ ہے، شہادت گھر کی لونڈی ہے، مغفرت یقینی استحقاق ہے، جنت کا پلاٹ پیدائش سے پہلے ہی بک ہے۔ یہ رشوت، سفارش، دھونس، دھاندلی کے عادی ہیں وہ اللہ کے دین   میں تحریف وتاویل کے۔  نہ وہ ممبر پارلیمنٹ ہونے کے لیے کردار کے مقرر معیار پر پورے اترتے ہیں نہ اِن کو سیاست،شہادت وقیادت کی اسلامی شرائط کا کوئی پاس ہے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں تو ہر کسی کی انگلی دوسرے کی جانب کیوں اٹھی ہوئی ہے؟  خدا   تک رسائی کا دعوی رکھنے والے ملاؤں کے بارے میں علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام ملائے حرم   از اقبال دین و دنیا   کے ایسے رہنماؤں کی وجہ سے ہی امت مسلمہ کی شب تاریک سحر ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ جو خود کو بدلنا نہ چاہتے ہوں ان کی دنیا میں کوئی انقلاب کیسے آئے گا؟

مغرب و مشرق کا فرق

یہاں بھی طفل وجواں اور مردوزن چاہے نیم مغربی لباس میں ہوں، اسی مشقت میں مبتلا ہیں جو ہم مشرق کے مسکینوں کا مقدر ہو گئی ہے، ویسے تو انسان پیدا ہی مشقت اٹھانے کے لیے کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے سورۃ البلد میں فرمایا : اور ہم کو قسم ہے باپ کی اور اس کی اولاد کی کہ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیاہے۔" رشتہ و پیوند نے آدمی کے گلے میں کتنے بھاری طوق اور ہاتھوں پیروں میں کیسی بیڑیاں ڈال دی ہیں۔ وہ ہانپتا کانپتا مہد سے لحد تک کا سفر کیسے کیسے بوجھ اٹھائے پورا کرتا ہے اور اس میں مغرب مشرق کا فرق بس اتنا ہے کہ وہاں اس میں تفریح کا بھی کچھ عنصر داخل کر دیا گیا اور یہاں بوجھوں مرتے انسانوں کو پیشانیوں سے پسینا پونچھنے کی بھی فرصت میسر نہیں۔ یہ زندگی نہیں گزارتے، زندگی انہیں گزارتہ اور اگلی منزل پر جا پٹختی ہے جہاں منکر نکیر اپنے گرز تھامے ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ اللہ کے نیک بندوں کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ وہ بھی رہتے اسی دنیا میں ہیں لیکن پھول میں خوشبو کی طرح ! زبان یار من ترکی از اقتدار احمد