اشاعتیں

2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

میری تصویر شئیر کرنا حلال، تمہاری تصویر شئیر کرنا حرام

جب سے ہمارے مرد   داعیانِ اسلام کے نزدیک کیمرے والی (اور اب تو ہر قسم کی۔۔۔ یقین نہ آئے تو قرآنک السٹریشنز دیکھ لیں ) تصویر  حلال ہوئی ہے وہ اپنی ہر تیسری سٹیٹس  اپ ڈیٹ ،ٹویٹ، بلاگ پوسٹ وغیرہ میں  تازہ تصویر بھی شامل فرما دیتے ہیں، ان کے فین اسے شئیر فرما کر ثواب دارین حاصل فرماتے ہیں۔ بھائیوں کو نیکی کی راہوں میں آگے نکلتے دیکھ کر بہنیں بھی ان کی اقتدا میں باپردہ تصویریں شئیر کرنے لگیں ۔ تب داعیانِ اسلام نے اجتہاد کیا نتیجہ یہ نکلا کہ :" میری تصویر شئیر کرنا حلال اور تمہاری تصویر شئیر کرنا حرام! " بازیچہء اطفال ہے دنیا مرے آگے!

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

گزشتہ دنوں خلیفہ عبدالحکیم کے مجموعہ کلام "کلامِ حکیم" کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ خوب صورت حمد نظر سے گزری تو اسے بیاض کے لیے لکھ ڈالا۔ میرے ابو جان فارسی کا یہ شعر اکثر پڑھا کرتے ہیں۔ ​ خالقِ کونین وہ ربِ قدیر جس نے بچپن میں بہائی جوئے شِیر چھوڑ دے کیوں حاجتِ برنا و پیر کیا نہیں وہ حال کا میرے خبیر "کار ساز ِ ما بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما درکارِ ما آزارِ ما" مور سے لے کر ملائک تک کا رب ایک دم غافل نہیں جو روزوشب ہے سپرد اس کے یہ نظم ونسق سب بدگمانی ہے یہاں ترکِ ادب "کار ساز ِ ما بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما درکارِ ما آزارِ ما" جو خزاں کے بعد لاتا ہے بہار خیر میں ہے صرف جس کا اختیار چاہے تو صحرا کو کردے لالہ زار کافرِ نعمت ہے جو ہو سوگوار "کار ساز ِ ما بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما درکارِ ما آزارِ ما" اس کے آگے کیا ہے میری احتیاج جو کرے سارے جہاں کا کام کاج ذرے ذرے میں ہے قائم جس کا راج دکھ دیا جس نے وہی دے گا علاج "کار ساز ِ ما بہ فکرِ کارِ ما فکرِ ما درکارِ ما آزارِ ما" ڈر نہ طوفاں سے کہیں ساحل بھی ہے ہر رہِ دشوار کی منزل بھی ہے کشتِ محنت کا کہی

مرا وجود عبارت اندھیری رات سے ہے

مرا وجود عبارت اندھیری رات سے ہے مگر وہ ایک تعلق جو انﷺ کی ذات سے ہے جمالِ ذات کو پیکر اگر ملا ہے کوئی تو منعکس اسی آئینہء صفاتؐ سے ہے نہ بددعا ہے کسی کے لیے نہ بدخواہی اگر چہ دکھ بھی انہیں دشمنوں کی ذات سے ہے درود  بھیجنا لازم ہے انؐ کے نام کے ساتھ کہ فرطِ شوق یہاں اتنی احتیاط سے ہے   شاعر: مرتضی برلاس انتخاب و طباعت: ناچیز​

اقبال کے نام پر

چند دن قبل اقبال   کے نام پر چلنے والے ایک بین الاقوامی "تحقیقی" ادارے کی لائبریری میں جانے کا اتفاق ہوا۔ استقبالیہ پر کلام اقبال کے  نیلے پیلے فریم لگے دیکھے۔ ایک شعر   یوں رقم تھا : حسنِ کردار سے نورِ مجسم ہو جا کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہو جائے ​ کونے میں شاعر کا نام انگریزی میں علامہ اقبال درج تھا گویا شعر کو اردو   میں درج کرنے سے ادارے کی بین الاقوامی شان میں جو کمی آئی تھی اسے لاطینی حروف کے بگھار سے مٹایا گیا ہو۔ کسی تحقیقی ادارے کا استقبالیہ ایسی جگہ ہے جہاں روزانہ  آنے والے محققین کی نظر لازما پڑتی ہو گی۔ اس ایک فریم کو دیکھ کر ادارے کی حالت زار کا اجمالی  اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ اگر سوشل میڈیا پر اس طرح کے اشعار اقبال کے ہیش ٹیگ یا ہینڈل کے ساتھ شئیر ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ عوام کی علمی حالت کا سب کو اندازہ ہے لیکن یہ کسی المیے سے کم نہیں کہ ایک آزاد ملک میں اقبال کے نام پر بننے اور امداد لینے والے تحقیقی اداروں میں بھی کلام اقبال سے یہ سلوک کرنے کی آزادی ہو، جب کہ شہر میں اہل علم کا کوئی قحط نہیں۔  افسوس کی بات یہ ہے کہ جنہیں سنی سنائی

توبۃ النصوح

ایسے بارہ گناہ جن سے توبہ   کیے بغیر چارہ نہیں  تحریر: حافظ ابن القیم   رحمہ اللہ  ترجمہ : مولانا عبدالغفار حسن   رحمہ اللہ  ​ قرآن مجید میں بارہ ایسے محرمات  (حرام کام) بیان ہوئے ہیں جن سے باز رہے بغیر کسی انسان پر لفظ تائب کا اطلاق نہیں ہو سکتا : 1.     کفر 2.      شرک 3.     نفاق 4.      فسوق 5.     عصیان 6.     اثم 7.     عدوان 8.     فحشاء 9.     منکر 10. بغی 11.       قول علی اللہ بلا علم  12. مومنوں کی را ہ کے علاوہ کسی دوسری راہ کی پیروی کرنا تمام محرمات شرعیہ کا دارو مدار انہی بارہ پر ہے ، توبۃ النصوح (خالص) اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب کہ انسان ان بارہ گناہوں سے پرہیز کرنے کا پورا ارادہ کرے۔ ان سب کی معرفت (پہچان) ضروری ہے، تا کہ پرہیز کرنے میں آسانی ہو۔  اقتباس از تفسیری نکات وا فادات از حافظ ابن القیم رحمہ اللہ  ناشر: مکتبہ اسلامیہ رحمان مارکیٹ غزنی سٹریٹ لاہور

غزہ

غزہ حالات دگرگوں ہیں ، میں جس سمت بھی دیکھوں  امت   پہ کرم ہو ، ذرا امت پہ کرم ہو  افطار کروں کیسے ؟ گو دستر ہے کشادہ  غزہ میں ہر اک بھائی مرا وقفِ الم ہو  خاموش کیا رہ سکتی ہے ؟ تقدیر بتا دے  انسان کا انسان پہ جب اتنا ستم ہو  کیا فائدہ ایماں نہ ہو اور ہاتھ میں بم ہو پٹرول کی دولت ہو یا جمشید کا جم ہو  تو چاہے تو ممکن ہے کہ نااہل قیادت ہاتھوں میں لیے اپنے زمانے کا علم ہو  قوموں کے ابھرنے میں مگر لگتا ہے کچھ وقت ایمان میں اخلاق میں تھوڑا سا تو دم ہو  کٹ جاتی ہے اک عمر اگر یادِ خدا ہو مٹ جاتی ہے تکلیف جو حددرجہ الم ہو  روزے سے ہوں رمضان کے ،مغرب میں مسافر مقبول مناجات کا سامان بہم ہو  ​ شاعر: جناب خلیل الرحمن چشتی   نیویارک ۱۵ رمضان المبارک ۱۴۳۵ھ ۱۴ جولائی ۲۰۱۴ء

مسجد اقصی

ایسا اندھیر تو پہلے نہ ہوا تھا لوگو لو چراغوں کی تو ہم نے بھی لرزتے دیکھی آندھیوں سے کبھی سورج نہ بجھا تھا لوگو آئینہ اتنا مکدر ہو کہ اپنا چہرہ  دیکھنا چاہیں تو اغیار کا دھوکہ کھائیں ریت کے ڈھیر پہ ہو محمل ارما ں کا گماں  ادا جعفری

ہم نے رمضان کے ساتھ کیا کیا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ماہ رمضان نصف گز ر چکا آئیے آج دو گھڑیوں کو اپنا محاسبہ کریں اللہ کے کرم سے ہماری زندگی میں ایک بار پھر ایمان کی بہار کا یہ مہینہ آیا جنت   کے دروازے کھل گئے ، جہنم کے دروازے بند ہو گئے عاجز و حقیر بندوں کے ہر عمل کا اجر و ثواب کئی گنا بڑھا دیا گیا ، لیکن ہم نے اس قیمتی وقت کی کیا قدر کی؟ ہم نے اس مبارک رمضان کے ساتھ کیا کیا؟ ہمارے ہاتھ روایتی دعاؤں کے لیے اٹھے ضرور لیکن ہم نے اللہ کی مخلوق سے مانگنا نہ چھوڑا ہم گھروالوں کے لیے نوع بہ نوع کھانے لاتے بناتے رہے لیکن ان کو بروقت نماز کی تلقین نہ کی؟ کتنے ہی گھر ہیں جہاں مسجدوں کی اذان پہنچتی رہی لیکن مرد باجماعت نماز کے لیے گھروں سے نہ نکلے اللہ کے فرائض سے غافل رہ کر نصف رمضان گزر گیا؟ قرآن کے مہینے میں ہم نے قرآن کو کتنا وقت دیا؟ ہم نے قرآن ختم کرنے کے من گھڑت شارٹ کٹ تو بہت شئیر کیے ، خود کتنا قرآن سمجھ کر پڑھا ؟ ہم جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدموں پر قیام اللیل میں ورم آ جاتا

مری زباں پر ثنائے محبوب ومرسل ِ رَبُّ العالَمِیں ہے​

  مری زباں پر ثنائے محبوب ومرسل ِ رَبُّ العالَمِیں ﷺہے ​ وہ جس کا ثانی کبھی نہیں تھا، وہ جس کا ہمسر کہیں نہیں ہے ​ ​ وہ جس کی صورت بھی مثالی، وہ جس کی سیرت بھی ہے مثالی ​ جو روزِ اول سے صادق الوعد وطاہر و عادل و امیں ہے ​ ​ امامِ پیغمبرانِ سابق، پیمبرِ امّتانِ عالم ​ وہ پرچم افشائے اولیں ہے ، وہ لشکر آرائے آخریں ہے ​ ​ کلامِ حق ہے کلام جس کا، پیامِ حق ہے پیام جس کا ​ نظامِ حق ہے نظام جس کا، نظام جو امن کا امیں ہے ​ ​ کتاب و حکمت سکھانے والا ، وہ راہِ جنت دکھانے والا ​ فلاحِ ہر دو جہاں کی ضامن حضورکی سنت ِ مبیں ہے ​ ​ اسی کی طاعت میں جنّتی ہیں رحیق ِ مختوم پانے والے ​ وہ جن کا انعام قصر و ایواں، نخیل وعُنّابِ انگبیں ہے ​ ​ علیمِؔ ناداں کو اس کی تعلیم نے بچایا ہے گمرہی سے ​ وہ جس کی تعلیم جاں فزا ہے، وہ جس کی گفتار دل نشیں ہے ​ ​ شاعر: علیم ناصری رحمہ اللہ ​

خدا خاموش کب ہے؟ ​

خدا خاموش کب ہے؟  ​ از ​ ڈاکٹر صابر آفاقی ​ ندا فاضلی کی نظم " خدا خاموش ہے" کے جواب میں  ​ ندا صاحب خداخاموش کب ہے؟  ندا دیتا رہا پہلے ندا دیتا ہے وہ اب بھی  صدا دیتا ہے وہ اب بھی  خدا خاموش کب ہے خدا تو بولتا ہے پر ہمارے کان بہرے ہیں  کہ آوازیں نہیں سنتے  یہ ہم ہیں جو  یہاں خاموش رہتے ہیں یہ ہم ہیں جو سدا مدہوش رہتے ہیں  جو سب نغموں کا، حرفوں کا، جو سب لفظوں کا خالق ہے اسے خاموش کہتے ہو؟ سبھی نغمے اسی کے ہیں زبانیں ساری اس کی ہیں بنوں میں ساری مہکاریں، سبھی چہکاریں اس کی ہیں اسے خاموش کہتے ہو ( ۲ ) خدا کے کام تھے جتنے  وہ اس نے کر دیے سارے کہ پھیلائی زمیں اس نے درختوں کو اگایا ہے پہاڑوں کو قرینے سے لگایا ہے ستارے جڑ دئیے اس نے  یہ سارے کردئیے روشن ہواؤں کو چلایا ہے پرندوں کو عطا کی نغمگی اس نے لبوں کو مسکراہٹ دی  سڑک پر "ڈولتی پرچھائیوں" کو زندگی دے دی  یہ سارے کام تھے اس کے  سو اس نے کر دئیے سارے ( ۳ ) بشر کے کام تھے جتنے  نہیں اک بھی ہوا اس

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کیا نمرود نے بابل میں جب دعوی خدائی کا ​ جہاں میں عام شیوہ ہو گیا جب خود ستائی کا ​ ​ اندھیرا ہی اندھیرا کفر نے ہر سمت پھیلایا ​ تو ابراہیم کو اللہ نے مبعوث فرمایا ​ ​ مٹا ڈالے بتوں کو توڑ کر اوہام مرسل نے ​ دیا بندوں کو پھر اللہ کا پیغام مرسل نے ​ ​ کیا شیطان کو رسوا عدوِ جان و دیں کہہ کر ​ کیا سینوں کو روشن لا احب الآفلیں کہہ کر ​ ​ مگر نمرود کو بھائیں نہ یہ باتیں بھلائی کی ​ کہ مسند چھوڑنی پڑتی تھی کافر کو خدائی کی ​ ​ ہوا یہ بندۂ شیطان، خلیل اللہ کا دشمن ​ چراغِ حق بجھانے کو کیا آتش کدہ روشن ​ ​ خلیل اللہ کو اس نے بھڑکتی نار میں ڈالا ​ مگر اللہ نے نمرود کا منھ کر دیا کالا ​ ​ بروئے کار آیا آج پھر وہ نورِ پیشانی ​ ہوئی آگ ایک پل میں کوثر و تسنیم کا پانی ​ ​ شاعر: ابوالاثر حفیظ جالندھری

سرمایۂ جاں ہیں شہ ِابرار کی باتیں

سرمایۂ جاں ہیں شہ ِابرارﷺ کی باتیں کس درجہ سکوں دیتی ہیں سرکارﷺ کی باتیں ہاں کیسے ہیں وہ کوچہ و بازار وہ گلیاں کچھ اور کرو شہرِ پُرانوار کی باتیں ہاں کیسے برستا ہے وہاں نور کا بادل کچھ اور کرو گنبدِ ضو بار کی باتیں واں کیسے غبارِ دل وجاں دُھلتا ہے زائر کچھ اور کرو ابرِ گہر بار کی باتیں ہاں کیسے وہاں چلتی ہیں تھم تھم کے ہوائیں کچھ او ر مچلتی ہوئی مہکار کی باتیں جی چاہے کہ ہر آن سنوں ذکرِ پیمبرﷺ ہوتی رہیں کونین کے سردارﷺ کی باتیں ​ شاعر: بشیر منذر 

چاکلیٹ بمقابلہ غیرت ایمان یا علم بمقابلہ جہل

بسم اللہ الرحمن الرحیم  ​ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  گزشتہ چند ہفتوں سے خبر گردش میں ہے کہ ملائیشیا میں کیڈ بری کمپنی کی ڈیری ملک نامی چاکلیٹ بار میں حرام اجزا پائے گئے ہیں ۔ اس خبر کے بعد ملائیشیا ایک بڑے سٹور نے جس کی ملائیشیا میں پانچ سو سے زیادہ شاخیں ہیں ، اپنے سٹورز پر ڈیری ملک چاکلیٹ رکھنا منع کر کے عوام سے  بائیکاٹ کی درخواست کر دی ۔  اس سارے معاملے کے بعد ملائشیا کی اسلامی اتھارٹی Jakim نے ڈیری ملک چاکلیٹ کے نمونے جمع کر کے ٹیسٹ کروائے اور جون کی ابتدا میں اعلان کیا کہ ان میں کوئی حرام جزء نہیں پایا گیا ۔  Malaysia's Department of Islamic Development, or JAKIM, reportedly said in a statement that they tested 11 samples of Cadbury Dairy Milk Hazelnut, Cadbury Dairy Milk Roast Almond and other products from the company's factory but none of them tested positive for pork. ملائشیا میں یہ تنازعہ جاری تھا جب سعودی حکام نے بھی وضاحت کی کہ ان کے ملک میں بکنے والی ڈیری ملک چاکلیٹ بار ملائشیا سے بن کر نہیں آتی بلکہ برطانیہ سےدرآمد{ امپورٹ} ہوتی ہے ، ا

تیرے اِیما پہ ہے موقوف ارادہ میرا

حمد تیرے اِیما پہ ہے موقوف ارادہ میرا تیرے محبوبؐ کا دِیں منزل و جادہ میرا میرے سانسوں سے تیرے نام کی خوش بو آئے حمد و مدحت میں کٹے وقت زیادہ میرا میرے باطن کو بھی اُجلا میرے مولا کر دے جس طرح صاف ہے ظاہر کا لبادہ میرا مخزنِ غیب سے وافر ہو میسر روزی بہرِ ایثار و سخا دِل ہو کشادہ میرا اپنا عرفاں بھی عطا تونے کیا ہے ورنہ سنگ پاروں پہ فِدا تھا دلِ سادہ میرا تُو ہی جانے میری ذات کا مصرف کیا ہے میری نظروں سے تو اوجھل ہے افادہ میرا یہ بھی ایقانِ کرم کی ہے علامت راسخ دل گناہوں میں جو کرتا ہے اعادہ میرا ​ شاعر: راسخ عرفانی از: ارمغانِ حرم انتخاب و طباعت ناچیز 

ماورا فکر و تخیل سے ہے پیکر تیرا​

ماورا فکر و تخیل سے ہے پیکر تیرا​ کیسے اک جھیل میں اترے گا سمندر تیرا ​ تیری عظمت کے نشانات ہیں کتنے روشن​ تابعِ حکم ہے خورشیدِ منور تیرا ​ آمدِ صبح کا جب دیتی ہے پیغام صبا​ ذکر ہوتا ہے گلی کوچہ میں گھر گھر تیرا ​ ثبت ہے جس پہ ابراہیمؑ کی مہرِ تعمیر​ ہم نے سجدوں سے بسایا ہے وہ محور تیرا ​ مدح خواں تیرے ہیں پیغمبرؐ مکی مدنی​ کیوں نہ لیں نام وضو کر کے سخنور تیرا ​ صحنِ کعبہ میں کہیں نصب مجھے بھی کر دے​ سنگِ اسود بھی تِرا میں بھی ہوں پتھر تیرا ​ پھر شرف تجھ کو ملا دیدِ حرم کا راسخ​ اوجِ گردوں پہ چمکتا ہے مقدر تیرا ​ شاعر: راسخ عرفانی از : ارمغانِ حرم انتخاب : ناچیز 

مسلم دنیا کی مشہور تحریکیں پابندیوں کی زد میں

گزشتہ کچھ عرصے میں  مسلم   دنیا کی کئی مشہور تحریکیں اور جماعتیں، اپنی ریاست کی جانب سے پابندیوں کی زد میں آئی ہیں۔  پاکستان میں پہلے سے  پابندی   کا شکار کالعدم  تحریک   طالبان پاکستان / ٹی ٹی پی جو بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح کسی صورت مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہی تھی ، ایک سنجیدہ فوجی آپریشن کے بعد حیران کن طور پر اسی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہوگئی جسے غیر اسلامی ، طاغوتی اور نجانے کیا کیا کہتے اس کے رہنما اور چمچے تھکتے نہیں ۔ اس وقت رابطوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ پاکستانی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ مذاکرات اولین ترجیح ہیں لیکن ناکام ہوئے تو آپریشن ضرور ہو گا۔ یہ وہ کام ہے جو پاکستانی حکومت اور فوج کو مل کر کو بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا لیکن یوں لگتا ہے کہ گزشتہ حکومتیں چوہے بلی کا کھیل جاری رکھنا چاہتی تھیں تا کہ مغرب سے امداد لگی رہے ۔ بہرحال دیر آید درست آید اللہ کرے کہ مذاکرات کامیا ب ہوں اور ضدی جاہلوں کی تحریک طالبان کو حصول علم کا موقع ملے ۔ یہ جنگلی منہ ہاتھ دھو کر قرآنی قاعدہ پکڑیں گے تو انہیں علم ہو گا کہ اسلام اس سے بالکل مختلف ہے جو ان کے بیانات میں ہوتا ہے ۔  دوسری اہم پیش رف