اشاعتیں

مارچ, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مینارپاکستان، تجدید عہد

مینار پاکستان ۔۔ تجدید عہد! یہاں اک عہد کیا تھا ہم نے گویا اک حلف لیا تھا ہم نے الگ اک ملک ہمارا ہوگا جو ہمیں جان سے پیار ہو گا ہو گا اک سبز ہلالی پرچم جس پہ چاند اور ستارہ ہو گا وہاں اک شمع جلائیں گے ہم جس کو آندھی سے بچائیں گے ہم بجھ نہ پائے گی قیامت تک جو راہ نسلوں کو دکھائے گی وہ شمع وہ ہو گئی روشن بے شک اور صد شکر ہے روشن اب تک !  آنکھ یہ دیکھ کے بھر آئی ہے اس کی لو کس لئے تھرائی ہے ؟ کیا ہوا عہد وفا بھول گئے؟ حلف جو ہم نے لیا بھول گئے؟ ہم سے ناراض ہوا ہے کیا‘ رب ؟ یاکہ ہم حرف دعا بھول گئے ؟ یہاں سب بیٹھ کے آؤ سوچیں ایک نکتے پہ ملاؤ سوچیں یہاں اک عہد کیا تھا ہم نے گویا اک حلف لیا تھا ہم نے الگ اک ملک ہمارا ہو گا جو ہمیں جان سے پیارا ہو گا کیا الگ ملک ہمارا ہے یہ؟ کیا ہمیں جان سے پیارا ہے یہ؟ ہے تو پھر آؤگلے لگ جائیں اپنی کھوئی ہوئی طاقت پائیں تھام لیں سبز ہلالی پرچم ہو نہ یکجہتی کی شمع مدھم شاعر: ریاض الرحمن ساغر

محمد علی جناح

محمد علی جناح سید سلیمان ندوی یہ نظم 1916 ء ميں لکھی گئی ۔ کہا جاتا ہے کہ محمد على جناح رحمہ اللہ پر لکھی گئی پہلی نظم ہے۔  اک زمانہ تھا کہ اسرارِ دروں مستور تھے كوہِ شملہ جن دنوں ہم پایہ ء سِینا رہا  جب كہ داروئے وفا ہر درد كا درماں رہی  جب كہ ہر ناداں بو على سينا رہا جب ہمارے چارہ فرما زہر كہتے تھے اسے جس پر اب موقوف سارى قوم كا جينا رہا  بادہ ء حبّ وطن کچھ کیف پیدا کرسکے  دور ميں یوں ہی اگر یہ ساغرو مِينا رہا  علتِ ديرينہ سے اصل قوىٰ بے كار ہیں گوشِ شنوا ہے ہم میں ، نہ دیدہ ء بِینا رہا  پر مریضِ قوم کے جینے کی ہے کچھ کچھ امید  ڈاکٹر اس کا اگر محمد علی جِینا رہا 

صارف معاشرے کی لعنت

مادیت ایک طرز حیات ہے ، ایک شیطانی مذہب ہے جو انسان کو اصل دین سے دور لے جا رہا ہے ، ملٹی نیشنل کمپنیاں اس کی مبلغ اور اشتہارات اس کی تبلیغ ؟ لوگ فرنچائز ہونے کو کیوں بے قرار ہیں ؟ مزید سے مزید کی تلاش میں سر گرداں ہیں ۔۔۔ معیار زندگی کی دوڑ ختم ہونے کو نہیں آ رہی ۔ انسان اپنے کردار ، علم اور سیرت کی بجائے اپنے جوتے، لباس ، بالوں کے انداز اور سیل فون ، آئی پوڈ ، لیپ ٹاپ اور گاڑی کے ماڈل سے پہچانا جاتا ہے ۔یہ سب کس وجہ سے ہے ؟ آج سے پچاس سال پہلے کا مشرقی اسلامی معاشرہ یہ سب نہ جان کر بھی پر سکون تھا، آج اس کا چَین کون چرا لے گیا ؟  سنیے مغرب کے بیٹے کی زبانی ، جس نے محض 22 برس کی عمر میں مغربی مادیت پرست معاشرے کی بے سکونی سے تنگ آ کر اسلام کی آغوش میں پناہ لی ۔ یہ خطاب اس نے بھارت میں مشرقی مسلمانوں سے کیا ۔  سنیے ۔ http://www.tubeislam.com/video/5090/Your-Desires-will-End-When-Youre-Dead

Time to Pray .....

تصویر
I got up early one morning, and rushed into the day, I have so much to accomplish, that I do not have time to pray. Problems just jumbled about me, and heavier came each task, Why does not God help me? I wondered, He answered: "You did not ask!"  I wanted to see joy and beauty; but the day toiled on grey and bleak, I wondered why God did not show me? He said: " But you did not seek!" I woke up early this morning, and paused before entering the day, I had so much to accomplish; that I had to take time to pray ! By: Allan Grant.

کیا پاکستان دارالاسلام ہے؟

سوال : دارالاسلام کی کیا تعریف ہے ؟ کیا اس وقت پاکستان دارالاسلام ہے ؟ جواب: دارالاسلام اس سر زمین کو کہتے ہیں جہاں قرآن وحدیث کے قوانین نافذ ہوں اور چونکہ پاکستان اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ یہاں اسلامی قوانین نافذ ہوں ، اور پاکستان بننے کے بعد قرار دادِ مقاصد منظور کر کے اسے بنیادی طور پر دارالاسلام بنا دیا گیا تھا ، جس طرح ایک زمین کو خرید کر برائے مسجد وقف کر دیا جاتا ہے ۔ اگر بعد میں آنے والے اس کو سجدہ وعبادت کے لائق نہیں بناتے تو اس میں مسجد کی بنیاد کا کوئی قصور نہیں ۔جیسا کہ اہل مکہ نے بیت اللہ پر تین سو سے زائد بت نصب کر دیئے تھے ۔  بہر حال پاکستان بنیادی طور پر دارالاسلام بھی ہے اور دارالمسلمین بھی ہے کیوں کہ اس کے باشندے مسلمان ہیں ۔ عملی طور پر دارالاسلام اس وقت بنے گا جب اس میں قرار دادِ مقاصد کے مطابق خالص اسلامی قوانین نافذ کیے جائیں گے ۔ فتوی از علامہ ابوالبرکات احمد ، تصدیق : حافظ محمد گوندلوی رحمہم اللہ ، اقتباس از : فتاوی برکاتیہ ، تالیف ونشر : محمد یحیی طاھر ،جامعہ اسلامیہ گلشن آباد گوجرانوالہ، جنوری 1989 ء ۔
A Chameleon By: Anton Chekhov The police superintendent Otchumyelov is walking across the market square wearing a new overcoat and carrying a parcel under his arm. A red-haired policeman strides after him with a sieve full of confiscated gooseberries in his hands. There is silence all around. Not a soul in the square. … The open doors of the shops and taverns look out upon God’s world disconsolately, like hungry mouths; there is not even a beggar near them. “So you bite, you damned brute?” Otchumyelov hears suddenly. “Lads, don’t let him go! Biting is prohibited nowadays! Hold him! ah … ah!” There is the sound of a dog yelping. Otchumyelov looks in the direction of the sound and sees a dog, hopping on three legs and looking about her, run out of Pitchugin’s timber-yard. A man in a starched cotton shirt, with his waistcoat unbuttoned, is chasing her. He runs after her, and throwing his body forward falls down and seizes the dog by her hind legs. Once mo