اشاعتیں

2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

جہان نو کی بنیاد اس طرح تعمیر کر جاؤ

جہانِ نو کی بنیاد اس طرح تعمیر کر جاؤ کہ اپنا نام پہلی اینٹ پر تحریر کر جاؤ تمہارے شعر اگر تلوار بن سکتے نہیں تم سے  تو اپنے فن کو اپنے پاؤں کی زنجیر کر جاؤ فقط سانسوں کی گنتی ہی کو جینا تو نہیں کہتے  کوئی اک واقعہ تو قابل تحریر کر جاؤ محبت میں وفا کے لفظ کا مفہوم مشکل ہے  مبادا تم کوئی آسان سی تعبیر کر جاؤ ​ شاعر: ضمیر جعفری 

یہ کس نے تیرہ شبی میں چراغ دکھلایا

یہ کس نے تیرہ شبی میں چراغ دکھلایا یہ کون نور کی مشعل لیے ہوئے آیا یہ کس نے ظلم کی آنکھوں میں ڈال دی آنکھیں یہ کون جبر کے طوفاں سے آ کے ٹکرایا قدم قدم پہ ہوا کون ظلم سے دو چار یہ کس نے زخم سہے زندگی کا غم کھایا ستم کے بدلے ہمیشہ دعائیں دی کس نے ؟َ یہ کس کی بخشش و رحمت سے کفر شرمایا حواس کھوئے ہوئے آبروؔ زمانہ تھا جو آپ ﷺ آئے تو انسانیت کو ہوش آیا شاعر:شعیب آبروؔ

چلے نہ اِیمان اک قدم بھی اگر ترا ہم سفر نہ ٹھہرے

چلے نہ اِیمان اک قدم بھی اگر ترا ﷺ ہم سفر نہ ٹھہرے تِرا حوالہ دیا نہ جائے تو زندگی معتبر نہ ٹھہرے حقیقتِ بندگی کی راہیں مدینہ طیبہ سے گزریں  ملے نہ اس شخص کو خدا بھی جو تیریؐ دہلیز پر نہ ٹھہرے کھلی ہوں آنکھیں کہ نیند والی ، نہ جائے کوئی بھی سانس خالی درود جاری رہے لبوں پر ، یہ سلسِلہ لمحہ بھر نہ ٹھہرے میں تجھؐ کو چاہوں اور اتنا چاہوں کہ سب کہیں تیراؐ نقشِ پا ہوں  ترے نشانِ قدم کے آگے کوئی حسِیں رہگزر نہ ٹھہرے یہ میرے آنسُو خِراج میرا ، مِرا تڑپنا عِلاج میرا َمَرَض مِرا اُس مَقام پر ہے جہاں کوئی چارہ گر نہ ٹھہرے شاعر: مظفرؔ وارثی 

مرد ہو کر!

تصویر
ہمارے معاشرے میں مردانگی کے عجیب معیار مقرر ہیں نجانے یہ کہاں سے مستعار لیے گئے ہیں لیکن یہ جانے مانے قوانین بن چکے ہیں ہم اکثر اس قسم کے جملے سنتے ہیں ’’ تم  مرد  ہو کر عورتوں کی طرح رو رہے ہو ‘‘ ’’ تو مرد ہو کر ڈر رہا ہے یار ‘‘ ’’ارے تم مرد ہو کر خود کھانا پکاتے ہو ‘‘ میں اکثر سوچتی ہوں کاش  مرانگی کے مروجہ معیار کے متعلق کسی روز ایسا جملہ بھی سننے کو ملے ’’ تم مرد ہو کر عورتوں کی طرح گھر میں  نماز  پڑھتے ہو یار ؟ چلو اٹھو  مسجد  چلیں ۔ ‘‘ ذرا سا غور کریں تو معلوم ہو گا جو باتیں دین میں کوئی عیب نہیں وہ ہمارے معاشرے میں باعثِ عار ہیں ۔۔۔ اور جو باتیں دین میں کبیرہ گناہ ہیں وہ ہمارے معاشرے کے عرف میں انتہائی عام سی عادتیں بن گئی ہیں ۔۔۔ ہم آج بھی ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں ۔۔۔ اور لگتا تو یہی ہے کہ ہمارا یہ فاصلہ گھٹانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔۔

سارے لفظوں میں ایک لفظ یکتا بہت اور پیارا بہت

سارے لفظوں میں ایک لفظ یکتا بہت اور پیارا بہت سارے ناموں میں اک نام ﷺ سوہنا بہت اور ہمارا بہت اس کی شاخوں پہ آ کر زمانوں کے موسم بسیرا کریں اک شجر ﷺ جس کے دامن کا سایا بہت اور گھنیرا بہت ایک آہٹ کی تحویل میں ہیں اس زمیں آسماں کی حدیں ایک آواز دیتی ہے پہرا بہت اور گہرا بہت  جس دیے کی توانائی ارض و سما کی حرارت بنی اس دیے ﷺ کا ہمیں بھی حوالہ بہت اور اجالا بہت میری بینائی اور مرے ذہن سے محو ہوتا نہیں میں نے روئے محمد ﷺ کو سوچا بہت اور چاہا بہت  میرے ہاتھوں اور ہونٹوں سے خوشبو جاتی نہیں  میں نے اسم محمد ﷺ کو لکھا بہت اور چوما بہت  شاعر: سلیمؔ کوثر

اخلاق کے اِیوان کی تعمیر ہے روزہ

روزہ اخلاق کے اِیوان کی تعمیر ہے روزہ بنیاد ِخرافات کی تدمیر ہے روزہ جس میں نہ ریا ہے نہ کوئی مکر نہ دھوکا اس حسنِ عبادت کی یہ تصویر ہے روزہ شیطان تو انسان کا دشمن ہے پرانا شیطان کا زندان ہے زنجیر ہے روزہ وہ روح کا ہو یا کہ مرض ہو وہ جسَد کا ہر ایک مرض کے لیے اکسیر ہے روزہ جو دل کہ مچلتا ہے گناہوں پہ ہمیشہ اس دل کے لیے نسخۂ تسخیر ہے روزہ روزہ سے ضیا ملتی ہے قلب اور نظر کو مومن کے لیے چشمۂ تنویر ہے روزہ  کافی ہے وہ روزے کے فضائل کی ضمانت جس شان سے قرآن میں تحریر ہے روزہ جس نفس کی اصلاح کا امکان نہ ہو عاجز اس نفس کی اصلاح کی تدبیر ہے روزہ عبدالرحمن عاجز مالیر کوٹلوی

جو ان کی سیرت میں ڈھل گیا ہے دلیل و برہان ہو گیا ہے

وہ ﷺ آ گئے ہیں تو زندگی کا نظام آسان ہو گیا ہے انہی کے صدقے میں آدمی آپ اپنی پہچان ہو گیا ہے جو ان کی سیرت میں ڈھل گیا ہے دلیل و برہان ہو گیا ہے علیؓ و عثمانؓ بن گیا ہے بلالؓ و سلمانؓ ہو گیا ہے برس گئے ہیں وہ زندگی پر حقیقتوں کا سحاب بن کر ہم اپنی ہستی سمجھ گئے ہیں خدا کا عرفان ہو گیا ہے نہ کوئی کالا رہا نہ گورا نہ کوئی ادنی رہا نہ اعلی اضافتوں سے بلند و بالا وجودِ انسان ہو گیا ہے جو ان سے منسوب ہو گئی ہے وہ بات ایمان بن گئی ہے جو ان کے ہونٹوں پہ آ گیا ہے وہ لفظ قرآن ہو گیا ہے شاعر: حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری  انتخاب از ’’ ثنائے خواجہ ﷺ ‘‘

آخری آرزو​

آخری آرزو ​ شورش کاشمیری بپاسِ خاطرِ احباب کس عنوان پر لکھوں؟ کہاں تک داستانِ دردِ دل، دردِ جگر لکھوں ؟ بہت دن گم شدہ یادوں کا میں نے تذکرہ لکھا کہاں تک نظم میں افسانہ ء شام و سحر لکھوں؟ مقدر کا نوشتہ تھا دل مرحوم کا ماتم اب اس پر اور کیا بارِ دِگر، بارِ دِگر لکھوں؟ خطابت کے بہت سے معرکے سر کر لیے میں نے  سیاسی تذکرے کب تک قلم کو توڑ کر لکھوں ؟ بحمداللہ قصائد کی زباں آتی نہیں مجھ کو  عزیزانِ گرامی قدر عرضِ مختصر لکھوں؟ بس اتنی آرزو ہے عمر کی اس آخری رو میں  خدا توفیق دے تو سیرتِ خیرالبشرﷺ لکھوں

پہنچے ہوئے بزرگ

فٹ پاتھ پر ميرے دائيں جانب ٹيلى فون بوتھ نظر آئے تو ميں اپنی نشست سے اٹھا جيب ميں سے سكے نكالے اور لاہور كا نمبر ملا ديا ۔ دوسرى طرف ميرا بيٹا ياسر تھا يہ سائنسدان بھی بہت " پہنچے ہوئے بزرگ " ہيں ۔ ميں گھر سے ہزاروں ميل دور سنگاپور كے ايك ريستوران ميں بيٹھا ہوا ہوں اور ميرا بيٹا لاہور كے علامہ اقبال ٹاؤن ميں ہے درميان ميں سمندر اور صحرا حائل ہيں اور ہم ايك دوسرے سے اس طرح باتيں كر رہے ہيں جيسے آمنے سامنے بيٹھے ہوں ۔ جس بزرگ نے ٹيلى فون ايجاد كيا اس كے مقابلے ميں ميں سائیں کوڈے شاہ كى بزرگى كا كيسے قائل ہوں جاؤں جو بھنگ پی كر سويا رہتا ہے اور جب جاگتا ہے تو لوگوں كو سلانے كى كوشش كرتا ہے؟ ميں نے فون پر على اور عمر كى چہکاريں سنيں اور پيشتر اس كے كہ نازى سے بات ہوتى ميرى جيب سكوں سے خالى ہو گئی اور اس كے ساتھ ہی رابطہ منقطع ہو گيا ۔ حقيقتوں اور توہمات ميں سے توہمات كو بس يہی برترى حاصل ہے كہ اس ميں جہالت كا سكہ چل جاتا ہے چنانچہ جيب خالى بھی ہو تو ايك سُوٹا لگا كر كہيں بھی اور كسى سے بھی بات ہو سكتى ہے ! (عطاءالحق قاسمی  از دنیا خوب صورت ہے)

2500 میں خوشیوں کی ضمانت ​

2500 میں خوشیوں کی ضمانت ​ ایک پاكستانى چینل پر چلنے کرشماتی لاکٹ کے اشتہار کا علم ہوا۔ بقول بنانے والوں کے یہ کرشماتی لاکٹ سونے اور ہیرے سے بنا ہے اور اس كو پہننے والے كے ليے زندگی کی سارى خوشيوں كى ضمانت دى جاتى ہے۔ لاکٹ کا "ہدیہ " صرف 2500 روپے ہے۔  سمجھ نہيں آتى كہ جن كے پاس زندگی كى سب خوشياں فراہم كرنے والا لاکٹ ہے وہ كاروباراور اشتہار كى محنت ميں كيوں لگے ہيں ؟ ان كے گھر تو نوٹوں کے درخت لگنے چاہئیں؟ اور سونے اور ہيرے والے زيور صرف 2500 ميں دست ياب ہو سكتے ہيں تو ملك بھر کے صرافہ بازاروں ميں کيوں لوٹ مچی ہے؟ كيا ایک مسلمان قوم كى ان تمام احمقانہ باتوں كى وجہ يہی نہيں کہ ہم اس بنيادى عقيدے سے انحراف كر بيٹھے ہيں کہ نفع و نقصان عطا کرنے والی صرف اللہ سبحانہ و تعالى كى ذات ہے : وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ‌ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِ‌دْكَ بِخَيْرٍ‌ فَلَا رَ‌ادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ‌ الرَّ‌حِيمُ ﴿١٠٧﴾ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنّ

عظیم اور اعلی فقط ایک تو ہے

عظيم اور اعلى فقط ايك تو ہے جہانوں سے بالا فقط ايك تو ہے ہوا بند كيڑے كو پتھر كے اندر وہ جس نے ہے پالا فقط ايك تو ہے وہ جس نے سدا اپنے بندے كے سر سے ہر آفت كو ٹالا فقط ايك تو ہے ہمارے دلوں سے سدا دور كر دے جو كلفت كا جالا فقط ايك تو ہے خطا كار بندے كى سارى خطائيں بھلا دينے والا فقط ايك تو ہے وہ ہے جس كى قدرت كى ہر بات انوكھی وہ سب سے نرالا فقط ايك تو ہے مصائب كى دلدل ميں گھرتے ہوؤں كو وہ جس نے سنبھالا فقط ايك تو ہے گنہ گار بزمی كے تاريک دل كو جو بخشے اجالا فقط ايك تو ہے خالد بزمی

پاکستانی خواتین میں دین داری کا رجحان

برطانوى جريدے گارڈين نے رواں ماہ كى ابتدا ميں پاکستانی خواتین میں دین داری کے بڑھتے ہوئے رجحان كے متعلق Jason Burke كا مضمون شائع كيا ہے ۔ مضمون كے مطابق گزشتہ دس برس ميں پاكستانى خواتين خاص طور پر امير اور تعليم يافتہ خواتين مذہب اسلام كى جانب زيادہ مائل ہو رہی ہيں ، بتايا گيا ہے كہ كس طرح مساجد ميں خواتين كى حاضرى بڑھی ہے۔ (دوسرے لفظوں ميں وہابی ہو گئی ہيں : ) ) مضمون نگار نے بنيادى طور پر يہ دکھڑا رويا ہے كہ Apple MacBook استعمال كرنے والى خوشحال خواتين، بزنس كالج كى طالبات ، بينك كى آئى ٹی ڈوژن ميں كام كرنے والى تكنيكى ماہر خواتين كو مذہب اسلام بھا گيا ہے۔ وہ قرآن مجيد پڑھنے ميں دل چسپی لے رہی ہيں ، اپنی مرضى سے نقاب ، حجاب يا سكارف پہنتى ہيں ، پنج وقتہ نمازى ہو گئیں ہيں اور قيامت يہ كہ .... ان كا كہنا ہے ان كو كسى نے مجبور نہيں كيا ۔ زيادہ زور اس بات پر ہے كہ مذہب پسندى كى يہ نئى لہر پچھلے دس سال ميں بڑھی ہے۔ اس لہر كا ذمہ دار اس نے سعوديہ اور كويت جيسى خليجى رياستوں كے اثر ونفوذ كو بھی ٹھہرايا ہے۔ (وہی گھسى پٹی باتيں) جيسن نے بينك آف پنجاب كى آئى ٹی ڈوژن كى مثال دى جہاں سارى خا

ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا

ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا ديوار سے بھونچال كو روكا نہیں جاتا داغوں كى ترازو ميں تو عظمت نہیں تلتى فيتے سے تو كردار كو ناپا نہیں جاتا فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں لگتے تلوار سے موسم كوئى بدلا نہیں جاتا چور اپنے گھروں ميں تو نہیں نقب لگاتے اپنی ہى كمائى كو تو لوٹا نہیں جاتا اوروں کے خيالات كى ليتے ہیں تلاشى اور اپنے گریبان ميں جھانكا نہیں جاتا فولاد سے فولاد تو كٹ سكتا ہے ليكن قانون سے قانون كو بدلا نہیں جاتا ظلمت كو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتى شعلوں كو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا طوفان ميں ہو ناؤ تو كچھ صبر كيا جائے ساحل پہ کھڑے ہو کے تو ڈوبا نہیں جاتا ! دريا كے كنارے تو پہنچ جاتے ہیں پياسے پياسوں کے گھروں تك كوئى دريا نہیں جاتا ! اللہ جسے چاہے اسے ملتى ہے مظفر عزت كو دكانوں سے خريدا نہیں جاتا !   شاعر: مظفر وراثی    ٹرانسكرپشن:راقمہ

داعیاتِ دین حفظہن اللہ برساتی جھینگروں کے نرغے میں

الحمد للہ و كفى وسلام على عبادہ الذين اصطفى وبعد ... قارئين كرام ، السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاتہ، جس وقت راقمہ يہ سطور رقم كر رہی ہے برساتى جھينگروں کے بے سرے راگوں نے آسمان سر پر اٹھا ركھا ہے ، برساتى جھينگروں كى عجيب نفسيات ہوتى ہے ، ايك كسى كونے سے سَر نكال كر مبہم سا سُر نكالتا ہے، دوسرا جواب ميں صدا ديتا ہے، تيسرا ہاں ميں ہاں ملاتا ہے ، اور پھر مل جل كر باجماعت بنا سمجھے بنا سوچے وہ شور اٹھتا ہے كہ كان پڑی آواز سنائى نہيں ديتى ۔ برساتى جھينگر... الامان الحفيظ ۔ سائبر دنيا ميں بھی برساتى جھينگروں جيسے بے سوچے سمجھے پکے راگ الاپنے والوں كى كوئى كمى نہيں ۔ جس طرح گاؤں كى چوپالوں ميں بعض بھائى كے مردہ گوشت كے شوقين كسى كا ذاتى تذكرہ شروع كرتے ہيں اور پھر بنا سوچے سمجھے بےتُكى ہانکتے جاتے ہيں، اسى طرح قوم كمپيوٹر لٹريٹ ہو گئی، چوپالوں سے اٹھ كر فورمز پر آ بيٹھی ، ليكن وہی بےہودہ عادتيں ساتھ اٹھا لائى ، ذوق سقيم كى تسكين آج بھی بہنوں بھائيوں كا مردہ گوشت كھانے سے ہوتى ہے۔ كہنے كو داعيانِ دين كا اكٹھ ہے ليكن دراصل داعياتِ دين كى گوشت خورى جارى ہے ۔ جناب شوق سے

اتنی خاموشی بھی اچھی نہیں ہے لوگو

یوں اک پل مت سوچ کہ اب کیا ہو سکتا ہے اک لمحے کی اوٹ بھی فردا ہو سکتا ہے ان آنکھوں کے اندر بھی درکار ہیں آنکھیں چہرے کے پیچھے بھی چہرہ ہو سکتا ہے کچھ رُوحیں بھی چلتی ہیں بیساکھی لے کر آدھا شخص بھی پُورے قد کا ہو سکتا ہے کاندھے کَڑیَل کے ہوں اور گٹھڑی بڑھیا کی بوجھ اٹھا کر بھی جی ہلکا ہو سکتا ہے مُجھ سے مِل کر بھی وہ میرا حال نہ پوچھے ساون بھی کیا اتنا سُوکھا ہو سکتا ہے ؟ اتنی خاموشی بھی اچھی نہیں ہے لوگو۔۔۔ سنّاٹوں سے بھی ہنگامہ ہو سکتا ہے اس دنیا میں ناممکن کچھ نہیں مظفر ؔ دودھ بھی کالا شہد بھی کڑوا ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ مظفرؔ وارثی ۔۔۔۔۔۔

کیا عورت مجتہدہ یا فقیہہ ہو سکتی ہے؟

سائل : کیا عورت مجتہدہ، مفتیہ یا فقیہہ ہو سکتی ہے؟ مفتى صاحب : ہر گز نہیں ، قطعی نہیں ، بالکل نہیں!!!! سائلہ : مفتی صاحب حافظ ذھبی کے نزدیک ۔۔۔۔ مفتى صاحب :ناقصات عقل ودین ۔ یہ فورم مردوں کے پسينے سے چلتا ہے كوئى عورت بول كر دکھائے ادھر! سائل : مفتی صاحب ميں مرد ہوں جی ، حافظ ذھبی کے نزدیک ۔۔۔۔ مفتی صاحب : میں حافظ ذھبی کو فقیہ نہیں مانتا ، وہ تو محدث ہیں ، محدث غیر فقیہ ہوتا ہے سائل : مفتی جی امہات المؤمنین اور صحابيات رضی اللہ عنہن کے فتاوی ۔۔۔ ؟ مفتی صاحب : رضیہ سلطانہ کی حکمرانی جیسے تاریخی نظائر شرعی حجت نہیں! سائل : مفتی جی ، ميں مفتى ہوں يہ آپ کے پڑوس سے ، ميرا سوال ہے ۔۔۔۔ مفتی صاحب : تم مفتی ہو  تو میں مجتہدہوں!   آزادانہ بحث کاحامی ادارہ : معزز سائلين ہمارے ’ علمی نگران مفتى صاحب ‘ سے بحث كرنے والے دريدہ دہن  ٗ مفسد   ٗ شرپسند  اور  بدنيت ہيں ۔ موضوع مقفل كيا جاتا ہے ۔ اب تاريخ اسلام ميں كبھی بھی كسى كو اس موضوع پر بولنے كى اجازت نہيں!!!  

رسولِ خدا كی محبت كا جذبہ ہمارے دلوں ميں اگر زندہ ہو گا

رسولِ خدا ﷺ كی محبت كا جذبہ ہمارے دلوں ميں اگر زندہ ہو گا تو پھرزندگی كا ہر آئندہ لمحہ درخشندہ تابندہ پائندہ ہو گا وہ اخلاق و انسانيت کے پیمبر ﷺ وہ انسان كے سب سے ہمدرد رہبر ﷺ كوئی ان كا ہم پايہ ماضی میں گزرا نہ اس دور میں ہے نہ آئندہ ہو گا حضورِ گرامی ﷺ كے روئے پرانوار كو چاند سے بھی نہ تشبیہ دو تم میں یہ بات اس واسطے كہہ رہا ہوں كہ اس طرح سے چاند شرمندہ ہو گا عرب، تركیا ، مصر، ايران، اردن، مراكش، يمن، شام، ہند، الجزائر جو اس رہبرِحق ﷺ كى عظمت كا منكر ہو كيا كوئى ايسا بھی باشندہ ہو گا؟ كبھی تم جو اس محسنِ دو جہاں ﷺ كے كسى نام ليوا سے جا كر ملو گے تو اپنى صفات و محاسن ميں وہ بھی رسول خدا ﷺ كا نمائندہ ہو گا وہ جن كے صحابہ ہيں بام فلك كے ستاروں كى مانند ضَو بار بزمىؔ ذرا غور كيجے كہ خود ان ﷺ كى عظمت كا معيار كتنا درخشندہ ہو گا ؟  شاعر- خالد بزمیؔ 

كہاں ہے آہ اب وہ مسلموں كى كار پردازی ؟

كہاں ہے آہ اب وہ مسلموں كى كار پردازی ؟ مٹا دى تھی جہاں سے جس نے غيروں كى فسوں سازى  امير و حاكم و شاہ و سپاہی ، صَف شِكن ہم تھے  مجاھد اور منصور و مظفّر، فاتح و غازى  ہمارا كام تھا زُھد و عِبادت، طاعَت و تقویٰ  ہمارا شُغل تھا احسان و حِكمت ، عِلم پَردازى  ہمارى عَقل كرتى تھی طَلِسم و سِحر كو باطل  ہمارے كارناموں سے عَياں تھى شانِ اِعجازى  وہ جرات تھی، وہ ہمّت تھی، وہ اِستَقلال تھا ہم ميں  مُہماتِ زمانہ كو سمجھتے تھے ہم اِک بازى  كہاں اب وہ مساوات و اخُوّت ، وہ مُحبّت ہے ؟ كہاں وہ دوستى ، وہ ہم نشينى اور ہم رازى ؟ كبھی جو تھے بلندى اَوج پر، وہ گر پڑے تھک كر  شِكَستہ بال وپر كو آج كل سُوجھی ہے شَہ بازى كہاں ہے آہ اب وہ مسلموں كى كار پردازی  مٹا دى تھی جہاں سے جس نے غيروں كى فُسوں سازى  شاعر: نامعلوم ​

كتاب الله يشكو.... کتاب اللہ کی فرياد... Complaint of Allah s Book

تصویر