اشاعتیں

2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مرد کے بھیس میں مخنث

بعض لوگ اس دنیا میں مرد   کی صورت لے کر آتے ہیں لیکن اندر سے پکے مخنث   ہوتے ہیں۔ نہ ان کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے میں غیرت آتی ہے نہ سسرال کے طفیلیے بن کر جینے میں کوئی شرم آتی ہے۔یک بات کہہ کر جتنی تیزی سے یہ اس سے مکرتے ہیں اتنی تیزی سے تو روافض بھی نہیں مکرتے جنہیں دجل و فریب میں کمال حاصل ہے۔ ان مخنثوں کی ماں چوں کہ زبان درازعورت ہوتی ہے لہذا گھر کی گندی تربیت اور گندے اخلاق کی وجہ سے بات بے بات زبان دراز عورت   کہنا ان کا تکیہ کلام ہوتا ہے جو باہر بھی ہر عورت کے لیے استعمال ہوجاتا ہے۔ عورت سے بات کرتے وقت یہ عورت وہ عورت اس رعونت سے کرتے ہیں گویا عورت ان سے کم تر درجے کی مخلوق ہو حالاں کہ ایسے بے غیرت مخنث سے بہتر ہے باغیرت مونث ہونا۔ ہم سسرال سے لے کر کھاتےہیں نہ اس کے زور پر اکڑتے ہیں۔  رافضیوں کے ہاں عزت تلاش کرنے والوں کو ذلت ہی ملے گی روسیاہی تو پہلے ہی چندیا تک وافر موجود ہے۔ اس تحریر میں کسی کا نام نہیں لیا گیا جس کی داڑھی میں تنکا ہو گا اسی کو تکلیف ہو گی۔

حج و عمرہ بار بار کرو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان ہر مجوسی فلسفے کا جواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ذی الحجہ کے پہلے دس دن سال کے افضل ترین دن ہیں، ایک مومن ان دنوں میں جو روحانی لذت محسوس کرتا ہے اس کا دل بھی گواہی دیتا ہے کہ ایسا ہی ہے۔ ہر طرف ایک اللہ کی عبادت کرنے والے نیکیوں کی دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، کوئی قربانی کے جانور تلاش کر رہا ہے کوئی احرام پہن کر اپنے رب کے گھر کی جانب پروانہ وار لپک رہا ہے، کسی کو صدقات میں دل کا سکون مل رہا ہے تو کوئی روزے رکھ کر پچھلے اور اگلے سال کے گناہوں کی بخشش کا طالب ہے۔ نیکیوں کے اس موسم بہار میں کچھ بدباطن لوگوں کی پرانی تکلیف جاگ جاتی ہے۔ مجوسی سلطنت کے احیا کا خواب جو اب بوسیدہ ہو کر تار تار ہو چکا ہے لیکن اس کے متروک بدبودار فلسفے اب بھی اتنی ہی شدت سے دہرائے جاتے ہیں۔ مجوسیوں کو سب سے زیادہ تکلیف حرم کی رونق سے ہوتی ہے، وہ رونق جو ہر مومن کی آنکھ کی ٹھنڈک ہے ان کی آشوب زدہ آنکھوں میں خار بن کر کھٹکتی ہے۔ دنیا اولمپک گیمز کے لیے جمع ہو تو ان کے منہ سے ستائش کے ڈونگرے برستے ہیں، نہ پیسے کے ضیاع کا خیال آتا ہے نہ یہ یاد رہتا ہے کہ غریب کا تن ننگا

اپنی بیوی کو کبھی گاڑی چلانا مت سکھانا ۔ جنید جمشید کی تبلیغ

ہمارے ملک کے معروف مبلغ حضرت جنید جمشید   صاحب بتاتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کے حسن کی وجہ سے کتنا ان سیکیور محسوس کرتے تھے کہ کہیں۔۔۔ اس لیے انہوں نے اپنی بیوی کو کبھی ڈرائیونگ نہیں سکھائی۔ ان کا کہنا ہے کہ "  کوئی بھی مرد جو یہ دیکھ رہا ہے اس کو وہ کہیں گے اپنی زندگی پر تمہارا احسان ہو گا کہ اپنی بیوی کو کبھی ڈرائیونگ کرنا مت سکھانا کیوں کہ جس عورت   کو بہت زیادہ گھر سے باہر نکلنے کی عادت پڑ جائے اس کو گھر بیٹھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ " یاد رہے کہ حضرت نے اپنی ذاتی زندگی اور اپنی نفسیاتی کیفیت کے متعلق یہ باتیں خود کھلے عام ذرائع ابلاغ پر شئیر کی ہیں اور کسی کی حسین بیوی کو بے تکلفانہ انٹرویو دیتے ہوئے شئیر کی ہیں جسے وہ بہت آرام سے تم کہہ کر مخاطب ہیں۔  اگر وہ دوسروں کے لیے وہی پسند کرتے جو اپنے لیے کرتے ہیں تو یہ انٹرویو کسی مرد کو دینا پسند کرتے ۔ بجائے اس کے کہ جنید جمشید صاحب ایک مسلم مبلغ کی طرح عورت کے گھر سے نکلنے کے بارے میں اسلام   کے قوانین کو معیار بناتے انہوں نے اپنی ذاتی نفسیاتی کیفیت کو معیار بنا کر فیصلہ کیا کہ اپنی بیوی کو گھر سے باہر نہ جانے دو۔ان کے مداح

اللہ کو پسند نہیں کہ عورت کا نام قرآن میں آئے

وطن عزیز کے ایک معروف مبلغ فرماتے ہیں: " اللہ کو پسند نہیں کہ عورت کا نام قرآن میں آئے"۔ شکر ہے جناب نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کو عورتیں پیدا کرنا ہی پسند نہیں تھا، وہ تو مردوں کی خاطر بنائی ہیں۔  اللہ نے اس طرح کے مبلغوں  کے سر پر سینگ نہیں اگائے، اس میں  کیا حکمت ہے؟ میرا سوہنا رب ہی جانتا ہے البتہ یہ بات یقینی ہے کہ ایسے جاہل ، اہل علم کی عبرت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ 

مرد مسلمان کا ذوق نظر

 سنا کرتے تھے کہ بھلے زمانوں کے مسلمان مرد   کسی کافرعورت   کو بھی مصیبت میں دیکھتے تو اس کو چادر   سے ڈھانپ دیتے تھے۔ اب  مرد مسلم   نے بہت ترقی کر لی ہے۔ ٹی وی، موبائل، کمپیوٹر، ٹیبلٹ کی رنگین سکرینوں پر ہر قسم کی عورت   دیکھنے کو میسر ہے، کالی ، گوری، زرد، موٹی، پتلی، لمبی، ٹھگنی، لیکن پھر بھی اس کا نظربازی کا شوق پورا ہو کر نہیں دے رہا۔ فلمی اداکارہ اور عام عورت کی تمیز مٹ گئی ہے۔ مسلم   ممالک میں کسی دھماکے کے بعد پریشان حال زخمی عوتوں کی  تصویریں ہوں یا کالج کی معصوم لڑکیوں کا گروپ فوٹو، ہر عمر ہر نسل کی صنف مخالف مسلم نوجوانوں کے لیے تفریح کا سامان ہے۔ ان کے پاس ایک ہی دلیل ہے انہوں نے تصویر   بنوائی کیوں؟ یہ  خیال شاید ہی آئے کہ آپ نے اپنی قبر میں جانا ہے جہاں اپنی نظروں کا حساب دینا ہے صنف مخالف کےلباس   کا نہیں۔ آج کل برما   (اراکان) کی آفت زدہ، اور بے حال خواتین کی نیم برہنہ   وڈیوز بہت تیزی سے شئیر ہو رہی ہیں۔ یہ مظلوم کی حمایت کا نیا انداز ہے۔ سچ ہےہوس   بڑھتی جائے تو بے قابو ہو جاتی ہے۔ اس کتے کی طرح جس کی زبان ہر وقت باہر لٹکی رہتی ہے۔ میں صرف ایک بات سوچتی ہوں اور ک

رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزوئے نبی رہی

رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزوئے نبی ﷺ رہی کبھی اشک بن کے رواں ہوئی کبھی درد بن کے دبی رہی شہِ دِیں کے فکرونگاہ سے مٹے نسل و رنگ کے تفرقے نہ رہا تفاخُرِ منصبی نہ رعونتِ نسبی رہی تھی ہزار تیرگئِ فتن نہ بھٹک سکا مرا فکر وفن مری کائناتِ خیال پر نظرِ شہِ عربی ﷺ رہی وہ صفا کا مہرِ منیر ہے طلب اُس کی نُورِ ضمیر ہے یہی رُوزگارِ فقیر ہے یہی التجائے شبی رہی  شاعر:  حفیظ تائب

مذہبی رجحان والے نوجوانوں کے مسائل کا حل۔۔۔ ںرالے سوالی (6)

امام احمد رحمہ اللہ سے ایک نوجوان نے پوچھا میں لوبیے والے پانی سے وضو کر سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا :نہیں۔ امام نے اس سےپوچھا: مسجد میں داخل ہونے کی دعا آتی ہے؟  اس نے کہا نہیں۔ امام رحمہ اللہ نے اسے نصیحت کی : "خود کو ان کاموں میں مصروف کرو جو تمہیں فائدہ دیں"۔ آج کل بہت سے مذہبی رجحان والے نوجوانوں کا یہی حال ہے اور ان کے مرض کا یہی علاج ہے۔

مسجد کے بارے میں غلط خبر دینے پر برطانوی ذرائع ابلاغ کی بدترین سبکی

کچھ دن پہلے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر برطانوی چینل فور کی ایک صحافی   کیتھی نیو مین نے ٹویٹ کیا کہ وہ برطانیہ   کی ایک مسجد  Streatham mosque کی جانب سے 'Visit My Mosque Day' منانے کا سن کر مسجد   گئیں،  لیکن   بقول ان کے انہیں  دروازے سے ہی باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ مزیدلکھا کہ میں اچھی طرح لباس پہنے اور سر ڈھانپے ہوئے تھی، میں نے جوتے اتار دیے تھے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ Well I just visited Streatham mosque for  # VisitMyMosque day and was surprised to find myself ushered out of the door... I was respectfully dressed, head covering and no shoes but a man ushered me back onto the street. I said I was there for  # VisitMyMosque mf But it made no difference اس ٹویٹ کو عوام اور پھر برطانوی ذرائع ابلاغ نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور گارڈین، ڈیلی میل، ہفنگٹن پوسٹ اور انڈیپینڈنٹ سمیت کئی ذرائع ابلاغ نے مسجد کے متعلق خبر   مرچ مسالا لگا کر نشر کردیں جس میں مسجد کو عورت کے خلاف تک کہا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسجد کی انتظامیہ کو دھمکی آمیز پیغامات ملے، معاملہ پولیس تک پہنچا تو واقع

نرالے سوالی (5)

ایک قاضی کی مجلس علم میں ایک شخص خاموش بیٹھا رہتا ایک روز انہوں نے اس سے کہا آپ بھی کچھ کہیے۔ اس نے کہا: روزہ دار روزہ کب کھولے؟ قاضی نے کہا غروب شمس کے وقت ۔ کہنے لگا: اگر سورج رات تک غروب نہ ہو تو کیا کرے ؟ قاضی صاحب نے کہا اس کا چپ رہنا ہی بہتر تھا ۔