اشاعتیں

اگست, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

قلزمِ ہستی

قلزمِ ہستی مانا کہ گنہگار ہوں پتلا ہوں خطا کا ​ خوگر ہوں بہرحال تری حمد وثنا کا ​ تجھ سے نہ ہو کیوں گردشِ ایام کا شکوہ ​ خالق ہے کوئی اور بھلا ارض و سما کا ​ اللہ کہاں ہیں وہ زمانے کے رفو گر ​ صد چاک گریباں ہے ملت کی قبا کا ​ وہ دور خراب ہے کہ مرے پاک وطن میں ​ ہر شخص نظر آتا ہے بمبار لڑاکا ​ ہیں ملک خداداد میں امریکا کے صدقے ​ ہر روز ڈرون حملے ہر اک روز دھماکا ​ مرجاتے ہیں وہ اور وں کو مارا نہیں کرتے ​ تازہ جو کیا کرتے ہیں آئین وفا کا ​ دیوانوں کو گزرے ہوئے اک عرصہ ہوا ہے ​ پھر بھی ہے ترے کوچے میں اک شور بلا کا ​ بے خوف جیا کرتے ہیں وہ مردِ خود آگاہ ​ دل میں جو نہیں رکھتے کوئی خوف قضا کا ​ ڈرتے ہیں صنم ضربِ براہیم سے اب بھی ​ فرعون کو ڈر اب بھی ہے موسی کے عصا کا اک اُ س کے سوا اور کسی کو نہ پکارو ​ ٹہرے ہوئے پانی میں نہیں کرتے چھناکا یہ قلزمِ ہستی ہے کہ ہے قطرہء ناچیز ​ صحرائے نفس ہے کہ یہ جھونکا ہے ہوا کا ​ انسان کو جو کچھ بھی دیا تو نے دیا خوب ​ اندازہ بھلا کیا ہو ترے جو دو سخا کا ​

قلب صمیم

قلبِ صمیم  از عبدالعزیز خالد وہ دُرِّ یتیم یمِ موج افگن ِ امکاں  پہنائے مکاں جس کی شعاعوں سے درخشاں دے خود کو نہ گو یونس متی پہ فضیلت  ہے واقعۃً شہپرِ اکلیلِ رسولاں رکھے جو نہ ہر شے سے عزیز اس  ﷺ کو تو سمجھو  پس مردِ مسلماں کا ابھی خام ہے ایماں  ہیں نوکِ زباں اس کے جو ہر دم ، دمِ گفتار  ملتے نہیں اوراق میں وہ معنئ پنہاں  بعثت ہوئی جس کی پئے تکمیلِ مکارم ظلماتِ جہالت میں کیا جس نے چراغاں  فحّاش نہ سخّاب نہ عیّاب نہ مدّاح  افضال و محامد میں جو ہے آیتِ قرآں ظالم کی نہ کی جس نے کبھی پشت پناہی  بیکس کا طرفدار، مددگارِ غریباں دنیا میں کرے نامِ خدا کی وہ  ﷺ منادی  قول اس کا ہے دعوی تو عمل اس کا ہے برہاں میں رہروِ درماندہ ہوں وہ صاحبِ منزل  ﷺ میں تفتہ و تفسیدہ وہ سرچشمہء حیواں وہ شاہدِ احوال ہے میں قائلِ اقوال میں مورِ فرومایہ وہ صد رشکِ سلیماں مجھ میں کوئی خوبی نہ جِبلّی ہے نہ کسبی  اک شخص ہوں میں دربدروبے سروساماں ہر موجِ نفس میں گھلی خوشبوئے حضوری  اس کا سرِداماں مجھے سرمایہء ِغفراں اظہارِتشکر سے منور مری آنکھیں ہوں اس کا ثنا سنج تو یہ اس کا ہے احساں یہ بھی ہے کرم اس کا کہ اشعار ہیں میرے