اشاعتیں

مارچ, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نماز اور اذان کو عربی میں ادا کرنا کیوں ضروری ہے

نماز اور اذان مقامی زبانوں میں کیوں نہیں، عربی میں کیوں؟ اسلام کے متعلق ایک قدیم اعتراض  کا جواب از ڈاکٹر بلال فلپس حفظہ اللہ (اردو ترجمہ: عائشہ بشیر) عربی زبان میں عبادت کی وجہ سے مسلمان جہاں بھی ہوں وہ اکٹھے عبادت کر سکتے ہیں۔ اگر میں پیکنگ جاؤں اور لوگ  چینی زبان میں اذان دیں تو مجھے معلوم نہیں ہو گا کہ  اذان دی گئی ہے کیوں کہ چین میں مساجد کی شکل ویسی نہیں ہوتی  جیسی ہندوستان میں ہے۔وہاں مسجد کی کوئی خاص شکل نہیں ہے ۔ وہ صرف ایک عبادت گاہ ہے جو صرف ایک کمرا بھی ہو سکتا ہے۔ تو اگر اذان  عربی میں ہو اور میں پیکنگ میں ہوں تو مجھے معلوم ہو جائے گا کہ یہاں کوئی مسجد ہے۔ اور میں اس مسجد میں جاؤں گا۔ اگر وہ امام چینی زبان میں نماز پڑھائے گا تو مجھے سمجھ نہیں آئے گی، لیکن چوں کہ نماز عربی میں ہے میں جا کر اس نماز میں شریک ہو سکتا ہوں۔ عربی مسلمانوں کے لیے ایک متحد کرنے والی قوت کا کام کرتی ہے۔  ساری دنیا میں  کہیں بھی چلے جائیں زبانوں کے فرق کے باوجود  وہ مل کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جیسا کہ سوال کرنے والے بھائی نے بھی ذکر کیا کہ یہ  اصل وحی کی زبان ہے۔ اور م

رمضان کی تیاری دل سے

بسم اللہ الرحمن الرحیم رمضان المبارک ہر گزرتے دن کے ساتھ قریب سے قریب تر آ رہا ہے۔  سال بھر بے تابی سے رمضان کا انتظار کرنے والےاللہ کی رحمت کے پیاسے ابھی سے اس  کی تیاری میں مصروف ہیں۔ کئی سال پہلے نصف رمضان میں ایک تحریر لکھی تھی جو یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔  یہ سارے جملے دراصل ایک عزم تھے، ایک پکار کہ کب تک ایسی ہی زندگی گزارتے رہنے کا ارادہ ہے؟ زندگی میں کچھ تو انقلاب چاہیے۔  اس سال رمضان آنے سے پہلے زندگی بہت بدل چکی ہے۔ ابو جان (رحمہ اللہ و جعل الجنۃ مثواہ) جو ہر سال رمضان کی تیاری کا شوق دلاتے تھے، اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ آج کل ان کی وہ سب نصیحتیں یاد آتی ہیں جو وہ رمضان سے پہلے کیا کرتے تھے۔ اب ان کا مہربان وجود ساتھ نہیں، یادیں باقی ہیں جو بار بار مطالبہ کرتی ہیں کہ رمضان سے پہلے  سچا عزم کرنا ہے،   رمضان کی تیاری دل سے کرنی ہے،اور  رمضان بھر اپنے عزائم پر ثابت قدم بھی رہنا ہے۔  اے اللہ ہمیں رمضان کا مہینہ عمل کی توفیق کے ساتھ عطا فرما اور جانے والوں کا حق ادا کرنے کی توفیق دے۔

ماؤں بہنوں کی عزت کے رکھوالے

ایمان داری سے تجزیہ کریں تو مجھے پاکستان کے دائیں اور بائیں بازو کے انتہاپسند رہنماؤں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ دونوں طرف خواتین کی تصاویر کو نازیبا انداز میں ایڈٹ کر کے سیاسی جلن نکالنے والے موجود ہیں۔ دونوں طرف کے لوگ مرد رہنماؤں کے ہر قسم کے سکینڈل ان کی سماجی حیثیت کے سبب دبا دیتے ہیں جب کہ خواتین کے انتہائی ذاتی معاملات میں ناک گھسیڑنا اور ان کو کردار کی سند جاری کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایک زمانے میں دائیں بازو والوں نے  ایک ذہین اور باصلاحیت خاتون رہنما کی عزت پر اس لیے حملے کیے کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں، کچھ دہائیوں بعد اسی دائیں بازو کی خواتین ایوان نمائندگان میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر بھی نظر آئیں اور کونسلرز کے انتخابات بھی لڑتی نظر آئیں۔ ایک جماعت کے رہنما کی ہر بیوی کے متعلق دائیں بازو کی اسلامی صحافت اور اسلامی سیاست نے جس انداز میں خبریں پھیلائیں، اس کو دیکھ کر بڑے بڑے اسلام پسند ان کی حمایت سے تائب ہو گئے۔ بائیں بازو کے   روشن خیالوں کے دھرنے اور جلسے میں ماؤں بہنوں سے جو سلوک ہوا وہ الگ،خواتین پولیس اہلکاروں کے ساتھ ان کا حسن اخلاق سب کو یاد ہے۔