اشاعتیں

2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا

تصویر

اب اپنے اپنے مقامات میں ہیں کھوئے ہوئے

اب اپنے اپنے مقامات میں ہیں کھوئے ہوئے جو ایک خون کے رشتے میں تھے پروئے ہوئے خلا کے دشت میں گرم سفر ہے قریۂ خاک بدن میں اپنے زمانوں کا غم سموئے ہوئے اجاڑ دے نہ کہیں آنکھ کو یہ ویرانی گزر گئی ہے اب اک عمر کھل کے روئے ہوئے تم اپنا وار سلامت رکھو کہ ہم نے بھی یہ طور دیکھے ہوئے ہیں، یہ دکھ ہیں ڈھوئے ہوئے کبھی کبھی یہ چراغ آسماں کے دیکھتے ہیں ہماری آنکھ میں یادوں کے زخم دھوئے ہوئے کھڑے تھے ہم سر ساحل یہ دیکھنے کے لیے کہ باخبر ہیں کہاں کشتیاں ڈبوئے ہوئے ​ خالد علیم

زندگی جہاد اور موت شہادت

" جرات كى طرح قربانى كے بارے ميں بھی پہلے غلط فہمى ہوئى ۔ خيال تھا كہ يہ گزرے ہوئے زمانے ميں كسى زرہ پوش اور كفن بردوش جذبے كا نام تھا اور اس زمانے ميں جنگ کے ليے ڈھال، تلوار اور يہ جذبہ كام آتا تھا، اب چونکہ ڈھال اور تلوار كا زمانہ نہیں رہا اس ليے قربانى كى بھی چنداں ضرورت نہيں ہے ۔ جنگ كے بارے ميں بھی ميرى واقفيت واجبى تھی ميرا اندازہ يہ تھا كہ جنگ صرف پہلے زمانے ميں ہوتی تھی جب آدمى غير مہذب اور بہادر تھا اور اب اس كى ضرورت نہيں رہی كيونكہ آدمى مہذب اور بزدل ہو گيا ہے ۔ پہلی جنگ عظيم كا ذكر كان ميں پڑا تو خيال ميں صرف اتنى ترميم ہوئی كہ اگر موجودہ دور ميں بھی جنگ كا كوئى وجود ہے تو وہ دور دراز كے علاقوں ميں ہو گا اور ہمارے علاقے كے بارے ميں راوى جب بھی لکھے گا چين لکھے گا ۔ وقت گزرا تو يہ غلط فہمى بھی دور ہوئی، معلوم ہوا كہ جنگ تو ہر وقت اور ہر جگہ جارى ہے ار اس كے وار سے نہ كوئى خطہ خالى ہے اور نہ كوئى لحظہ فارغ ۔ اس جنگ ميں ہر قدم پر قربانى دينى پڑتی ہے اور اس كى بھی مختلف صورتيں ہوتی ہیں۔ انتہائى صورت شہادت ہے مگر بعض لوگوں كى قسمت ميں ايسى زندگی لکھی جاتى ہے کہ وہ جيتے ج

شعائر اسلام کا استہزا اور آزادئ اظہار کی حدود

بسم اللہ الرحمن الرحيم ​ گزشتہ کچھ سالوں سے دنيا بھر ميں اہانت مقدسات (blasphemy) كے افسوس ناك واقعات ايك تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں ، ان واقعات ميں خاص طور پر دين اسلام كے متعلق جرائم زيادہ نماياں ہیں۔ اس صورت حال ميں ہوناتو يہ چاہیے تھا كہ مسلمان اپنے دين متين كے ليے پہلے سے زيادہ حساس ہوجاتے اور اس كا جوانمردى سے دفاع كرتے مگر دكھ كى بات يہ ہے کہ بعض نام نہاد "تعليم يافتہ" مسلمان رفتہ رفتہ دينى حميت كى دولت سے محروم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر آزادى اظہار كا يہ معنى ہے كہ انسان بلا سوچے سمجھے كچھ بھی کہہ سكے تو يہ آزادى معاشرے کے ليے زہر قاتل ہے۔ ايك مقولہ ہے کہ: " تمہیں چھڑی گھمانے کی آزادی ہے مگر جہاں كسى كى ناک شروع ہوتی ہے وہاں تمہاری آزادی ختم ہو جاتی ہے ۔" آزادى اظہار كے نام پر دوسروں كى ذاتيات ميں مخل ہونے ، ان كے مذہبى جذبات كو مجروح كرنے اور ان كى مقدسات كا مذاق اڑانے كى اجازت قطعا نہیں دى جا سكتى۔  بحيثيت ايك مسلمان اور پاكستانى ميرے ليے بہت دكھ كا مقام ہے كہ اسلام اور دوقومى نظريے کے حامى ہونے كا دعوى كرنے والے ايك نظرياتى اشاعتى گروپ کے  آرگن اخبار

خونِ اسلاف جما جاتا ہے شريانوں ميں

خونِ اسلاف جما جاتا ہے شريانوں ميں اب حرارت ہی نہیں سوختہ سامانوں ميں زندگی عيش سے کٹتی ہے پرى خانوں ميں رقصِ ابليس كا منظر ہے شبستانوں ميں نفس بوذرؔ و سلمانؔ كہاں سے لائيں ہوش مندى كا رمق بھی نہیں نادانوں ميں ديكھنے والى نگاہوں نے مسلسل ديكھا  خون جمہور چھلکتے ہوئے پيمانوں ميں خرمن ملت بيضا پہ شرر افشاں ہیں عظمت آدم خاكى كہاں شيطانوں ميں اہل مغرب كى "تصانيف" پہ دم ديتے ہیں اور "قرآن" ہے لپٹا ہوا جزدانوں میں  ابھی رائج ہے حكومت ميں فرنگی قانون ابھی اسلام كا آئين ہے تہہ خانوں ميں  ناظم قوم بھی ہیں تفرقہ پرداز بھی ہیں يہ دو رنگی بھی جنم ليتى ہے انسانوں ميں حوصلہ تنگ ہے، دل تنگ، نظر تنگ مگر وسعت قلب وجگر ديكھیے اعلانوں ميں سرزمين اپنی تو سونا بھی اگل سكتى تھی كام كرنے كا سليقہ بھی ہو دہقانوں ميں زہر دے ديجيے ہم خانماں بربادوں كو  اك اضافہ ہی سہی آپ کے احسانوں ميں خون سے كى ہے غريبوں نے وطن كى تعمير اس حقيقت كو مگر ڈھونڈئیے افسانوں ميں " شكوہ اللہ سے خاكم بدہن ہے مجھ كو " گھر کے مالك بھی گنے جاتے ہیں مہمانوں ميں ​ ش

جب ہم اپنوں کو خاموشی سے قتل کرتے ہیں

بسم اللہ الرحمن الرحيم ​ السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاتہ آج جى چاہ رہا ہے كہ ايك سوال اٹھايا جائے اور اس كا جواب مل كر تلاش كيا جائے ۔  ميرى ايك جونيئر نے مجھے ايك قول ارسال كيا : " خاموشى ايك ايسا درخت ہے جس پر کڑوا پھل نہیں لگتا " ۔ جب كہ ميں اس قول سے متفق نہیں ہو پا رہی ۔۔۔ شايد يہ ميرے حالات كا اثر ہے ۔۔۔۔  ميرا خيال ہے کہ بے وقت خامشى ايك امر بيل ہے جو انسان كى زندگی كو برباد اور اس كے سماجى تعلقات كے ہرے بھرے باغ كو ويران كر ديتى ہے ۔ خاموشى ، جب آپ كو رب سے مانگنے اور بار بار مانگنے كى ضرورت ہو ، تكبر اور حماقت ہے ۔۔۔  خاموشى ، جب كسى اپنے كو نرم الفاظ كے مرہم كى ضرورت ہو ظلم ہے ، بے مروتى ہے ۔۔۔۔  خاموشى ، جب كسى ظالم كو ظالم كہہ كر صدائے احتجاج بلند كرنے كا وقت ہو ، بدترين بزدلى ہے ۔۔۔ خاموشى ، جب نيكى كا حكم دينے كا وقت ہو ، رب كى نافرمانى ہے ۔۔۔ خاموشى ، جب برائى سے روكنے كا مقام ہو ، بدترين بے حميتى ہے۔۔۔ خاموشى ، جب كوئى آپ پر احسان كرے ناقدرى ہے ، ناشكرى ہے ۔۔۔  ہماری بے وقت خاموشى ، ہميں رب كى رحمت سے دور لے جاتى ہے اور خاموشى ، بے جا سرد م

محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں

بسم اللہ الرحمن الرحيم ​ قادیانی  اپنے  مذہب کی تبلیغ اسلام کے نام سے کرتے ہیں اگر چہ وہ  اپنے مذہب کے سوا سب مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں، ان  كى  کئی ويب سائٹس اسلامی ناموں سے کام کر رہی  ہیں تا کہ معصوم مسلمانوں کو دھوکا دیا جا سکے۔ الإسلام ڈاٹ آرگ بھی ایک قادیانی ویب سائٹ ہے  جس کا ماٹو ہے : " محبت سب كے ليے ، نفرت كسى سے نہیں "  ۔ مسلمانوں كو دھوكہ دينے كے ليے جماعت احمديہ ايسا دعوى تو كر سكتى ہے مگر ان قادیانی کتب اور تاریخ  کا مطالعہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ محبت کا یہ چکنا چپڑا دعوى باطل ہے۔ ملاحظہ فرمائيے خاتم النبيين حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے امتيوں كے متعلق مرزا غلام احمد قاديانى كذاب كے پيروكاروں كا خبث باطن  : مرزا كا خليفہ مرزا بشير الدين بن غلام احمد قاديانى كہتا ہے : " ہر وہ مسلمان جو مسيح (يعنى اس كا والد غلام احمد قاديانى ) كى بيعت نہ كرے، خواہ وہ ان كے بارے ميں سنے نہ سنے وہ كافر اور دائرہ ء اسلام سے خارج ہے۔ "  بحوالہ: آئينہ ءصداقت : ص 35 مزيد اپنے باپ مرزا كے حوالے سے كہتا ہے : " ہم ہر چیز ميں حتى كہ اللہ ، رسول ، قرآن ، ن

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

بسم اللہ الرحمن الرحيم  نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی اور خانگی زندگی کے متعلق غلط فہمیوں اور اعتراضات کا ایک  شافی جواب مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے دیا ہے۔ ذیل میں  الرحیق المختوم کا باب خانہ نبوت پیش کیا جا رہا ہے تاکہ طلبہ علم کے کام آ سکے۔ یاد رہے کہ یہ باب اس سے پہلے یونی کوڈ میں انٹرنیٹ پر موجود نہیں تھا۔  خانہء نبوت ​ 1- ہجرت سے قبل مكہ ميں نبي صلى اللہ عليہ وسلم كا گھرانہ آپ اور آپ كى بيوى حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا پر مشتمل تھا۔ شادى كے وقت آپ كى عمر پچیس سال تھی اور حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا كى عمر چاليس سال۔ حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا آپ كى پہلى بيوى تھیں اور ان كے جيتے جی آپ نے كوئى اور شادى نہیں كى ۔ آپ كى اولاد ميں سے حضرت ابراہیم كے سوا تمام صاحبزادے اور صاحبزادياں ان ہی حضرت خديجہ کے بطن سے تھیں۔ صاحبزادگان ميں سے تو كوئى زندہ نہ بچا البتہ صاحبزادياں حيات رہیں ۔ ان كے نام يہ ہیں ۔ زينب، رقيہ، ام كلثوم، اور فاطمہ ۔ زينب كى شادى ہجرت سے پہلے ان كے پھوپھی زاد بھائى حضرت ابو العاص بن ربيع سے ہوئى۔ رقيہ اور ام كلثوم كى شادى يكے بعد ديگ

ہر اك لب پہ ہے گفتگوئے محمد

ہر اك لب پہ ہے گفتگوئے محمد ﷺ  ہر اك دل ميں ہےآرزوئے محمد ﷺ  فرشتوں ميں پائى نہ انساں ميں ديكھی جہاں سے نرالى ہے خوئے محمد ﷺ گرفتار جن كى ہے جان دوعالم  وہ ہیں گيسوئے مشكبوئے محمد ﷺ  يہ دل چاہتا ہے وہ لب چوم لوں ميں كہ جس لب پہ ہو گفتگوئے محمدﷺ  برسنے لگی مجھ پہ رحمت خدا كى  چلا جھوم كر جب ميں سوئے محمد ﷺ  ہو ميدان محشر كہ فردوس اعلى  رہوں ہر گھڑی روبروئے محمد ﷺ  مسلمان سب كٹ مريں غم نہیں ہے نہ جائے مگر آبروئے محمد ﷺ  ہو مسكن مرا يا الہى مدينہ ہو مدفن مرا خاك كوئے محمد ﷺ  خدا كى قسم شك نہیں اس ميں عاجز  رہ خلد ہے رہ كوئے محمد ﷺ  شاعر: عبدالرحمن عاجز مالیرکوٹلوی

تم آنچل کو لہرا دینا

انتساب: اپنی بیٹیوں اور سارى دنيا كى نئى نسل كے نام  از : سليم كوثر  وہ سارے سمے جو بيت گئے  كيا ہار گئے كيا جيت گئے جتنے دكھ سكھ كے ريلے تھے ہم سب نے مل كر جھيلے تھے اب شايد كچھ بھی ياد نہیں  كبھی وقت ملا تو سوچیں گے آپس كے پيار گھروندوں كو  گڑیوں كے کھیل كھلونوں كو  گیتوں سے مہكتى كيارى كو  آنگن کے پھل پھلوارى كو  دھرتى پر امن كى خواہش كو  موسم كى پہلى بارش كو  كن ہاتھوں نے بے حال كيا  كن قدموں سے پامال ہوئے وہ سارے سمے جو بيت گئے  مل جل كر كتنے سال ہوئے  يہ سال مہینے دن گھڑیاں ہم سب سے آگے نكل گئے ہم جيون رتھ ميں جڑے ہوئے كبھی سنبھل گئے کبھی پھسل گئے دامن ميں صبر كى مايا ہے  کچھ آس اميد كى چھايا ہے  ہر راہ ميں كانٹے پڑے ہوئے  ہر موڑ پہ دکھ ہیں کھڑے ہوئے تم بڑے ہوئے ، تم بڑے ہوئے  اب لورى پاس نہیں رہتی  تمہیں نيند كى آس نہیں رہتی ميرى بات سنو ،  ميرى بات سنو  جب ہاں انكار ميں لپٹی ہو تصوير غبار ميں لپٹی ہو کہیں رشتے ٹوٹنے والے ہوں یا اپنے چھوٹنے والے ہوں جب ہر جانب ديواريں ہوں اور پاؤں پڑی دستاريں ہوں جب سچی بات پہ ہاتھ اٹھیں پھر اٹھنے والے ہا

ہم کیسے مسلمان ہیں کیسے مسلمان

ہے خوف خدا دل ميں نہ تو غيرت ايمان  ہم کیسے مسلمان   ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ دنيا كى ہميں فكر ہے عقبى كا نہیں دھيان  ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ ہم صرف سنا كرتے ہیں مسجد كى اذانيں  ہوتى ہی نہیں ہم سے ادا پانچ نمازيں آباد ہمارے ہیں مكان ، مسجديں ويران  ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ مايوس نظر آتے ہیں مسجد كے منارے آتا ہی نہیں كوئى مؤذن كے پكارے منبر پر ہے خاموشى تو محراب ہیں سنسان  ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ دنيا كى خرافات ميں مغرور ہوئے ہیں ہم لوگ تلاوت سے بہت دور ہوئے ہیں گھر گھر نظر آتے ہیں طاقوں ميں قرآن  ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ ہونٹوں پہ نہیں اب ہیں دين كے ترانے  ذہنوں ميں گونجتے ہیں فقط فلموں كے گانے شيطان كے پابند ہوئے آج مسلمان  ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ كيا سنت   سركار (ص) ہميں ياد نہیں ہے؟ اصحاب كا كردار ہميں ياد نہیں ہے؟ اب دل ميں كہاں جذبہ ء فاروق وعثمان؟ ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟ رسم و رواج ميں سب انسان ہیں ڈوبے دولت كى فراونى ميں اللہ كو بھولے  افسوس نہیں آج یہ ہیں سركاركے فرمان  ہم کیسے

ہم مسلماں ہیں اک جسم اور ایک جاں

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے میں، رحم کرنے میں اور ایک دوسرے کے ساتھ نرمی اور شفقت کرنے میں ایک  جسم   کی طرح ہے، جب اس کا ایک عضو درد کرتا ہے تو  باقی سارا جسم اس کی وجہ سے شب بیداری اور بخار میں مبتلا رہتا ہے۔ '' ( متفق علیہ ) ہم مسلماں ہیں اک جسم اور ایک جاں سارے عالم كو يہ بات بتلائيں گے مبتلائے بلا ہوں مسلماں كہیں دل ہمارے پريشان ہو جائيں گے مذہبی رابطے كا ہے يہ معجزہ وہ  مسلمان   مشرق يا مغرب كا ہو  سب كے احساس وافكار وارمان بھی ايك جيسے جہاں كو نظر آئيں گے  ہم مسلماں ہیں اک جسم اور ایک جاں سارے عالم كو يہ بات بتلائيں گے مبتلائے بلا ہوں مسلماں كہیں دل ہمارے پريشان ہو جائيں گے اك خدا، ايك كعبہ ہے قرآن ايك  كلمہ حق سے اپنی ہے پہچان ايك  خاتم الانبياء اپنے سردار ہیں كيسے ممكن ہے پھر ہم بكھر جائيں گے؟  ہم مسلماں ہیں اک جسم اور ایک جاں سارے عالم كو يہ بات بتلائيں گے _____ شاعر: صابر على پورى ________ ٹرانسكرپشن: ناچیز  سنيے

نشان عزم ملت یوم تکبیر

چٹانوں ميں بپا ہے زلزلہ سا  كيا ذرے نے كہساروں كو تسخير مقام شكر ہے الحمد للہ وطن كے خواب نے پائى ہے تعبير كھلا كس شان سے اللہ اكبر  نشان عزم   ملت   يوم تكبير  ​ __شاعر_ خورشيد رضوى ___ ​

صدر كى تسبيح

سياہ تاريك راتوں ميں ايك رات    ميں نے نماز پڑھی اور نيند كى وادى ميں کھو گیا   ميں نے ديكھا كہ صدر كى تسبيح ميرے ہاتھ ميں ہے    اللہ کا ذكر كرنے كا سوچ كر دانے ہاتھ ميں ليے    ليكن ميں نے خود كو "ميرى ذات، ميرى ذات اور ميرى ذات " كا ورد كرتے پايا   اس كے بعد ميں نے دوسرا ورد شروع كيا اور كہنا شروع كيا    ميرى لذتيں   اور اس ورد كو ميں ہزاروں مرتبہ دہراتا چلا گيا    پھر اچانك ميرى آنکھ كھل گئی    ميں نے خود كلامى كى : يہ برى رات كا بدترين خواب ہے۔۔۔    ۔۔۔ بھلا صدر كى بھی كوئى تسبيح ہے؟"    مسبحة الرئيس: عبدالرحمن يوسف   مصرى شاعر  ترجمة : ام نور العين