اشاعتیں

جولائی, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

آخری آرزو​

آخری آرزو ​ شورش کاشمیری بپاسِ خاطرِ احباب کس عنوان پر لکھوں؟ کہاں تک داستانِ دردِ دل، دردِ جگر لکھوں ؟ بہت دن گم شدہ یادوں کا میں نے تذکرہ لکھا کہاں تک نظم میں افسانہ ء شام و سحر لکھوں؟ مقدر کا نوشتہ تھا دل مرحوم کا ماتم اب اس پر اور کیا بارِ دِگر، بارِ دِگر لکھوں؟ خطابت کے بہت سے معرکے سر کر لیے میں نے  سیاسی تذکرے کب تک قلم کو توڑ کر لکھوں ؟ بحمداللہ قصائد کی زباں آتی نہیں مجھ کو  عزیزانِ گرامی قدر عرضِ مختصر لکھوں؟ بس اتنی آرزو ہے عمر کی اس آخری رو میں  خدا توفیق دے تو سیرتِ خیرالبشرﷺ لکھوں

پہنچے ہوئے بزرگ

فٹ پاتھ پر ميرے دائيں جانب ٹيلى فون بوتھ نظر آئے تو ميں اپنی نشست سے اٹھا جيب ميں سے سكے نكالے اور لاہور كا نمبر ملا ديا ۔ دوسرى طرف ميرا بيٹا ياسر تھا يہ سائنسدان بھی بہت " پہنچے ہوئے بزرگ " ہيں ۔ ميں گھر سے ہزاروں ميل دور سنگاپور كے ايك ريستوران ميں بيٹھا ہوا ہوں اور ميرا بيٹا لاہور كے علامہ اقبال ٹاؤن ميں ہے درميان ميں سمندر اور صحرا حائل ہيں اور ہم ايك دوسرے سے اس طرح باتيں كر رہے ہيں جيسے آمنے سامنے بيٹھے ہوں ۔ جس بزرگ نے ٹيلى فون ايجاد كيا اس كے مقابلے ميں ميں سائیں کوڈے شاہ كى بزرگى كا كيسے قائل ہوں جاؤں جو بھنگ پی كر سويا رہتا ہے اور جب جاگتا ہے تو لوگوں كو سلانے كى كوشش كرتا ہے؟ ميں نے فون پر على اور عمر كى چہکاريں سنيں اور پيشتر اس كے كہ نازى سے بات ہوتى ميرى جيب سكوں سے خالى ہو گئی اور اس كے ساتھ ہی رابطہ منقطع ہو گيا ۔ حقيقتوں اور توہمات ميں سے توہمات كو بس يہی برترى حاصل ہے كہ اس ميں جہالت كا سكہ چل جاتا ہے چنانچہ جيب خالى بھی ہو تو ايك سُوٹا لگا كر كہيں بھی اور كسى سے بھی بات ہو سكتى ہے ! (عطاءالحق قاسمی  از دنیا خوب صورت ہے)