اشاعتیں

اگست, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

زندگی جہاد اور موت شہادت

" جرات كى طرح قربانى كے بارے ميں بھی پہلے غلط فہمى ہوئى ۔ خيال تھا كہ يہ گزرے ہوئے زمانے ميں كسى زرہ پوش اور كفن بردوش جذبے كا نام تھا اور اس زمانے ميں جنگ کے ليے ڈھال، تلوار اور يہ جذبہ كام آتا تھا، اب چونکہ ڈھال اور تلوار كا زمانہ نہیں رہا اس ليے قربانى كى بھی چنداں ضرورت نہيں ہے ۔ جنگ كے بارے ميں بھی ميرى واقفيت واجبى تھی ميرا اندازہ يہ تھا كہ جنگ صرف پہلے زمانے ميں ہوتی تھی جب آدمى غير مہذب اور بہادر تھا اور اب اس كى ضرورت نہيں رہی كيونكہ آدمى مہذب اور بزدل ہو گيا ہے ۔ پہلی جنگ عظيم كا ذكر كان ميں پڑا تو خيال ميں صرف اتنى ترميم ہوئی كہ اگر موجودہ دور ميں بھی جنگ كا كوئى وجود ہے تو وہ دور دراز كے علاقوں ميں ہو گا اور ہمارے علاقے كے بارے ميں راوى جب بھی لکھے گا چين لکھے گا ۔ وقت گزرا تو يہ غلط فہمى بھی دور ہوئی، معلوم ہوا كہ جنگ تو ہر وقت اور ہر جگہ جارى ہے ار اس كے وار سے نہ كوئى خطہ خالى ہے اور نہ كوئى لحظہ فارغ ۔ اس جنگ ميں ہر قدم پر قربانى دينى پڑتی ہے اور اس كى بھی مختلف صورتيں ہوتی ہیں۔ انتہائى صورت شہادت ہے مگر بعض لوگوں كى قسمت ميں ايسى زندگی لکھی جاتى ہے کہ وہ جيتے ج

شعائر اسلام کا استہزا اور آزادئ اظہار کی حدود

بسم اللہ الرحمن الرحيم ​ گزشتہ کچھ سالوں سے دنيا بھر ميں اہانت مقدسات (blasphemy) كے افسوس ناك واقعات ايك تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں ، ان واقعات ميں خاص طور پر دين اسلام كے متعلق جرائم زيادہ نماياں ہیں۔ اس صورت حال ميں ہوناتو يہ چاہیے تھا كہ مسلمان اپنے دين متين كے ليے پہلے سے زيادہ حساس ہوجاتے اور اس كا جوانمردى سے دفاع كرتے مگر دكھ كى بات يہ ہے کہ بعض نام نہاد "تعليم يافتہ" مسلمان رفتہ رفتہ دينى حميت كى دولت سے محروم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر آزادى اظہار كا يہ معنى ہے كہ انسان بلا سوچے سمجھے كچھ بھی کہہ سكے تو يہ آزادى معاشرے کے ليے زہر قاتل ہے۔ ايك مقولہ ہے کہ: " تمہیں چھڑی گھمانے کی آزادی ہے مگر جہاں كسى كى ناک شروع ہوتی ہے وہاں تمہاری آزادی ختم ہو جاتی ہے ۔" آزادى اظہار كے نام پر دوسروں كى ذاتيات ميں مخل ہونے ، ان كے مذہبى جذبات كو مجروح كرنے اور ان كى مقدسات كا مذاق اڑانے كى اجازت قطعا نہیں دى جا سكتى۔  بحيثيت ايك مسلمان اور پاكستانى ميرے ليے بہت دكھ كا مقام ہے كہ اسلام اور دوقومى نظريے کے حامى ہونے كا دعوى كرنے والے ايك نظرياتى اشاعتى گروپ کے  آرگن اخبار

خونِ اسلاف جما جاتا ہے شريانوں ميں

خونِ اسلاف جما جاتا ہے شريانوں ميں اب حرارت ہی نہیں سوختہ سامانوں ميں زندگی عيش سے کٹتی ہے پرى خانوں ميں رقصِ ابليس كا منظر ہے شبستانوں ميں نفس بوذرؔ و سلمانؔ كہاں سے لائيں ہوش مندى كا رمق بھی نہیں نادانوں ميں ديكھنے والى نگاہوں نے مسلسل ديكھا  خون جمہور چھلکتے ہوئے پيمانوں ميں خرمن ملت بيضا پہ شرر افشاں ہیں عظمت آدم خاكى كہاں شيطانوں ميں اہل مغرب كى "تصانيف" پہ دم ديتے ہیں اور "قرآن" ہے لپٹا ہوا جزدانوں میں  ابھی رائج ہے حكومت ميں فرنگی قانون ابھی اسلام كا آئين ہے تہہ خانوں ميں  ناظم قوم بھی ہیں تفرقہ پرداز بھی ہیں يہ دو رنگی بھی جنم ليتى ہے انسانوں ميں حوصلہ تنگ ہے، دل تنگ، نظر تنگ مگر وسعت قلب وجگر ديكھیے اعلانوں ميں سرزمين اپنی تو سونا بھی اگل سكتى تھی كام كرنے كا سليقہ بھی ہو دہقانوں ميں زہر دے ديجيے ہم خانماں بربادوں كو  اك اضافہ ہی سہی آپ کے احسانوں ميں خون سے كى ہے غريبوں نے وطن كى تعمير اس حقيقت كو مگر ڈھونڈئیے افسانوں ميں " شكوہ اللہ سے خاكم بدہن ہے مجھ كو " گھر کے مالك بھی گنے جاتے ہیں مہمانوں ميں ​ ش