اشاعتیں

منتخب تحریر

نماز اور اذان کو عربی میں ادا کرنا کیوں ضروری ہے

نماز اور اذان مقامی زبانوں میں کیوں نہیں، عربی میں کیوں؟ اسلام کے متعلق ایک قدیم اعتراض  کا جواب از ڈاکٹر بلال فلپس حفظہ اللہ (اردو ترجمہ: عائشہ بشیر) عربی زبان میں عبادت کی وجہ سے مسلمان جہاں بھی ہوں وہ اکٹھے عبادت کر سکتے ہیں۔ اگر میں پیکنگ جاؤں اور لوگ  چینی زبان میں اذان دیں تو مجھے معلوم نہیں ہو گا کہ  اذان دی گئی ہے کیوں کہ چین میں مساجد کی شکل ویسی نہیں ہوتی  جیسی ہندوستان میں ہے۔وہاں مسجد کی کوئی خاص شکل نہیں ہے ۔ وہ صرف ایک عبادت گاہ ہے جو صرف ایک کمرا بھی ہو سکتا ہے۔ تو اگر اذان  عربی میں ہو اور میں پیکنگ میں ہوں تو مجھے معلوم ہو جائے گا کہ یہاں کوئی مسجد ہے۔ اور میں اس مسجد میں جاؤں گا۔ اگر وہ امام چینی زبان میں نماز پڑھائے گا تو مجھے سمجھ نہیں آئے گی، لیکن چوں کہ نماز عربی میں ہے میں جا کر اس نماز میں شریک ہو سکتا ہوں۔ عربی مسلمانوں کے لیے ایک متحد کرنے والی قوت کا کام کرتی ہے۔  ساری دنیا میں  کہیں بھی چلے جائیں زبانوں کے فرق کے باوجود  وہ مل کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جیسا کہ سوال کرنے والے بھائی نے بھی ذکر کیا کہ یہ  اصل وحی کی زبان ہے۔ اور م

اے وطن پاک وطن روح روان احرار

وطن جوش ملیح آبادی اے وطن پاک وطن روح روان احرار اے کہ ذروں میں ترے بوئے چمن رنگ بہار اے کہ خوابیدہ تری خاک میں شاہانہ وقار اے کہ ہر  خار ترا  روکش صد روئے نگار ریزے الماس کے تیرے خس و خاشاک میں ہیں ہڈیاں اپنے بزرگوں کی تری خاک میں ہیں پائی غنچوں میں ترے رنگ کی دنیا ہم نے تیرے کانٹوں سے لیا درس تمنا ہم نے تیرے قطروں سے سنی قرات دریا ہم نے تیرے ذروں میں پڑھی آیت صحرا ہم نے کیا بتائیں کہ تری بزم میں کیا کیا دیکھا ایک آئینے میں دنیا کا تماشہ دیکھا پہلے جس چیز کو دیکھا وہ فضا تیری تھی پہلے جو کان میں آئی وہ صدا تیری تھی پالنا جس نے ہلایا  وہ ہوا تیری تھی جس نے گہوارے میں چوما وہ صبا تیری تھی اولیں رقص ہوا مست گھٹائیں تیری بھیگی ہیں اپنی مسیں آب و ہوا میں تیری اے وطن آج سے کیا ہم تیرے شیدائی ہیں آنکھ جس دن سے کھلی تیرے تمنائی ہیں مدتوں سے ترے جلووں کے تماشائی ہیں ہم تو بچپن سے ترے عاشق و سودائی ہیں بھائی طفلی سے ہر اک آن جہاں میں تیری بات تتلا کے جو کی بھی تو زباں میں تیری حسن تیرے ہی مناظر نے دکھایا ہم کو تیرے ہی صبح کے نغمو

روزہ افطار کرنے کی دعا

تصویر
روزہ افطار کرنے کی مستند دعا 

محبت جو دل بدل دے

  رمضان المبارک قریب آنے پر ہر مسلمان روحانی لحاظ سے خاص قسم کی خوش گوار کیفیت سے گزرتا ہے۔ علوم اسلامیہ کی تدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان دنوں لوگ  رمضان سے متعلق سوالات پوچھتے ہیں تو اہل اسلام کی اس مہینے سے محبت دیکھ کر اور بھی خوشی ہوتی ہے۔  شعبان کے  مبارک دن جب آپ اللہ سبحانہ وتعالی سے اس عظیم مہینے کی برکتوں تک پہنچنے کی دعا مانگ رہے ہوں اور گزشتہ رمضان کی حسین یادیں آپ کو اس سال مزید بہتر بننے کی کوشش کی ہمت دلا رہی ہوں، اس عالم میں آپ کو اچانک  طلبہ و طالبات سے ایسے سوالات موصول ہوں  جو  سوال کم اور معاشرے کے اخلاقی زوال کا اشارہ زیادہ ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے معطر فضا میں یکایک بدبو کا بھبکا آپ تک آ پہنچے۔ اس سے زیادہ دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ اتنے کم عمر،معصوم بچے اور بچیاں ایسے الم ناک مسائل کا شکار ہیں؟ وہ عمر جس میں والدین،تعلیمی ادارے اور درسی کتابیں ہی کل عالم ہوتی ہیں، اس میں انہوں نے کیسی فکریں پال لی ہیں؟ یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔ ان کے والدین، اساتذہ،  علماء، حکمرانوں، تعلیمی اداروں اور  ذرائع ابلاغ نے نئی نسل کو یہاں پہنچانے میں بہت محنت کی ہے۔ میرے نزدیک یہ بچے ب

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

             سورۃ یوسف آیت 3 میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَ ـ ٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ ﴿ ٣ ﴾  یہاں احسن القصص کا ترجمہ بہت سے اردو مترجمین نے اچھا قصہ یا بہترین قصہ کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ غلط فہمی عام ہوتی جا رہی ہے کہ "حضرت یوسف کی کہانی سب سے بہترین کہانی ہے"۔ اردو میں اس آیت کا سب سے درست ترجمہ جو مجھے ملا، مولانا محمد جونا گڑھی رحمہ اللہ کا ہے جو لکھتے ہیں: "ہم آپ کے سامنے   بہترین بیان   پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبروں میں سے تھے ۔" یعنی احسن القصص کا مطلب ہے بہترین بات، سب سے اچھا بیان۔ یہ ترجمہ امام ابن تیمیہ سمیت کئی مفسرین کی اس رائے کے عین مطابق ہے جس میں انہوں نے واضح فرمایا ہے کہ  احسن القصص کی تفسیر ایک دوسرے قرآنی مقام سے کی جائے گی  جہاں اسے احسن الحدیث  کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب اچھا قصہ سمجھنے والے اسے زیر سے قِصص سمجھ رہے ہیں جو کہ غلط ہے۔   خلاصہ یہ کہ ا

استقبال رمضان کا روزہ رکھنے کی ممانعت

استقبال رمضان کا روزہ رکھنے کی ممانعت : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لَا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ ” تم میں سے کوئی بھی رمضان سے ایک یا دو دن قبل روزہ نہ رکھے الا کہ اگر کوئی شخص کسی دن کا روزہ رکھتا ہو تو وہ اس دن کا روزہ رکھ لے ” ۔   [ صحیح بخاری کتاب الصوم باب لا یتقدم رمضان بصوم یوم ولایومین (1914) ] یعنی اگر کوئی شخص سو موار اور جمعرات کا روزہ باقاعدگی سے رکھتا ہے اور یہ دن رمضان سے ایک دن قبل آجائے تو ایسے شخص کے لیے یہ روزہ رکھنا جائز ہے ۔ لیکن خاص طور پر 'استقبال رمضان' کی غرض سے شعبان کے آخری ایک یا دو دن کا روزہ رکھنا ممنوع ہے۔

رمضان کی تیاری دل سے

بسم اللہ الرحمن الرحیم رمضان المبارک ہر گزرتے دن کے ساتھ قریب سے قریب تر آ رہا ہے۔  سال بھر بے تابی سے رمضان کا انتظار کرنے والےاللہ کی رحمت کے پیاسے ابھی سے اس  کی تیاری میں مصروف ہیں۔ کئی سال پہلے نصف رمضان میں ایک تحریر لکھی تھی جو یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔  یہ سارے جملے دراصل ایک عزم تھے، ایک پکار کہ کب تک ایسی ہی زندگی گزارتے رہنے کا ارادہ ہے؟ زندگی میں کچھ تو انقلاب چاہیے۔  اس سال رمضان آنے سے پہلے زندگی بہت بدل چکی ہے۔ ابو جان (رحمہ اللہ و جعل الجنۃ مثواہ) جو ہر سال رمضان کی تیاری کا شوق دلاتے تھے، اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ آج کل ان کی وہ سب نصیحتیں یاد آتی ہیں جو وہ رمضان سے پہلے کیا کرتے تھے۔ اب ان کا مہربان وجود ساتھ نہیں، یادیں باقی ہیں جو بار بار مطالبہ کرتی ہیں کہ رمضان سے پہلے  سچا عزم کرنا ہے،   رمضان کی تیاری دل سے کرنی ہے،اور  رمضان بھر اپنے عزائم پر ثابت قدم بھی رہنا ہے۔  اے اللہ ہمیں رمضان کا مہینہ عمل کی توفیق کے ساتھ عطا فرما اور جانے والوں کا حق ادا کرنے کی توفیق دے۔

ماؤں بہنوں کی عزت کے رکھوالے

ایمان داری سے تجزیہ کریں تو مجھے پاکستان کے دائیں اور بائیں بازو کے انتہاپسند رہنماؤں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ دونوں طرف خواتین کی تصاویر کو نازیبا انداز میں ایڈٹ کر کے سیاسی جلن نکالنے والے موجود ہیں۔ دونوں طرف کے لوگ مرد رہنماؤں کے ہر قسم کے سکینڈل ان کی سماجی حیثیت کے سبب دبا دیتے ہیں جب کہ خواتین کے انتہائی ذاتی معاملات میں ناک گھسیڑنا اور ان کو کردار کی سند جاری کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایک زمانے میں دائیں بازو والوں نے  ایک ذہین اور باصلاحیت خاتون رہنما کی عزت پر اس لیے حملے کیے کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں، کچھ دہائیوں بعد اسی دائیں بازو کی خواتین ایوان نمائندگان میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر بھی نظر آئیں اور کونسلرز کے انتخابات بھی لڑتی نظر آئیں۔ ایک جماعت کے رہنما کی ہر بیوی کے متعلق دائیں بازو کی اسلامی صحافت اور اسلامی سیاست نے جس انداز میں خبریں پھیلائیں، اس کو دیکھ کر بڑے بڑے اسلام پسند ان کی حمایت سے تائب ہو گئے۔ بائیں بازو کے   روشن خیالوں کے دھرنے اور جلسے میں ماؤں بہنوں سے جو سلوک ہوا وہ الگ،خواتین پولیس اہلکاروں کے ساتھ ان کا حسن اخلاق سب کو یاد ہے۔

فحاشی کی پرزور مذمت میں مصروف گفتار کے غازی

آپ سوشل میڈیا پر موجود ہوں اور عامیانہ زبان سے واسطہ نہ پڑے ممکن نہیں۔ لیکن افسوس تب ہوتا ہے جب فحاشی کی مذمت کرنے والے مومن حضرات کی زبان بگڑتی ہے۔ پہلے یہ تاک تاک کر آزاد خیال خواتین کے بیانات (اس میں ان کی وڈیو سے بھی کوئی پرہیز نہیں) ڈھونڈتے ہیں، پھر ان کی مذمت کے لیے وہ وہ فحش الفاظ، اور عریاں جملے (سمیت ماں بہن کی گالیوں کے) ڈھونڈ کر لاتے ہیں کہ فحاشی کا باپ بھی شرما جائے۔ روشن خیالوں کے دیدوں کا پانی تو اعلانیہ مر چکا  ہے، ان خضر صورت شرفا کی زبان کو کیا ہوا ہے یہ کوئی معمہ نہیں۔ کیا اسلام کا پہلا رکن یہ ہے کہ فحاشی کو ہر کونے کھدرے میں ڈھونڈا جائے پھر اس کی مذمت میں دن رات ایک کر دیے جائیں؟ سب سے خطرناک معاملہ یہ ہے کہ دوسروں کے اخلاقی زوال پر انگلیاں اٹھاتے ہمیں یہ غور کرنے کا موقع نہیں مل رہا کہ دائیں بازو کے شعلہ بیان مقرر، جوش خطابت میں کیا بول گئے ہیں؟ کہیں یہ اس بات کی علامت تو نہیں کہ بے حیائی کے جراثیم خود آپ کے دماغ تک کام دکھا چکے ہیں۔ جب انسان فحاشی کی مذمت میں بھی ماں بہن کو یاد کرتا ہوا پایا جائے، چاہے اپنی یا کسی کی، تو سمجھ لینا چاہیے کہ صورت مومناں کرتوت

نرالے سوالی (9)

و نوجوان ایک بزرگ کا مذاق اڑانے کی نیت سے اس کے دونوں طرف بیٹھ گئے۔ ایک نے پوچھا: شیخ آپ احمق ہیں یا جاہل؟ اس نے کہا: میں دونوں کے درمیان ہوں۔ ایک بزرگ جن کی کمر خم ہو چکی تھی راستے سے گزر رہے تھے، ایک نوجوان نے شرارتا کہا: یہ کمان کتنے کی ہے؟ بزرگ نے جواب دیا: اللہ تمہاری عمر لمبی کرے تو یہ مفت مل جائے گی ! (عربی سے ترجمہ  شدہ)