اشاعتیں

ستمبر, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مرا وجود عبارت اندھیری رات سے ہے

مرا وجود عبارت اندھیری رات سے ہے مگر وہ ایک تعلق جو انﷺ کی ذات سے ہے جمالِ ذات کو پیکر اگر ملا ہے کوئی تو منعکس اسی آئینہء صفاتؐ سے ہے نہ بددعا ہے کسی کے لیے نہ بدخواہی اگر چہ دکھ بھی انہیں دشمنوں کی ذات سے ہے درود  بھیجنا لازم ہے انؐ کے نام کے ساتھ کہ فرطِ شوق یہاں اتنی احتیاط سے ہے   شاعر: مرتضی برلاس انتخاب و طباعت: ناچیز​

اقبال کے نام پر

چند دن قبل اقبال   کے نام پر چلنے والے ایک بین الاقوامی "تحقیقی" ادارے کی لائبریری میں جانے کا اتفاق ہوا۔ استقبالیہ پر کلام اقبال کے  نیلے پیلے فریم لگے دیکھے۔ ایک شعر   یوں رقم تھا : حسنِ کردار سے نورِ مجسم ہو جا کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہو جائے ​ کونے میں شاعر کا نام انگریزی میں علامہ اقبال درج تھا گویا شعر کو اردو   میں درج کرنے سے ادارے کی بین الاقوامی شان میں جو کمی آئی تھی اسے لاطینی حروف کے بگھار سے مٹایا گیا ہو۔ کسی تحقیقی ادارے کا استقبالیہ ایسی جگہ ہے جہاں روزانہ  آنے والے محققین کی نظر لازما پڑتی ہو گی۔ اس ایک فریم کو دیکھ کر ادارے کی حالت زار کا اجمالی  اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ اگر سوشل میڈیا پر اس طرح کے اشعار اقبال کے ہیش ٹیگ یا ہینڈل کے ساتھ شئیر ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ عوام کی علمی حالت کا سب کو اندازہ ہے لیکن یہ کسی المیے سے کم نہیں کہ ایک آزاد ملک میں اقبال کے نام پر بننے اور امداد لینے والے تحقیقی اداروں میں بھی کلام اقبال سے یہ سلوک کرنے کی آزادی ہو، جب کہ شہر میں اہل علم کا کوئی قحط نہیں۔  افسوس کی بات یہ ہے کہ جنہیں سنی سنائی