اشاعتیں

جنوری, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ترانۂ توحید

ترانۂ توحید  توحید سے ہے قائم نام و نشاں ہمارا  موجود ہے از ل سے یہ کارواں ہمارا  اللہ کی عبادت ہے زندگی ہماری  بندے ہیں ہم اسی کے وہ مہرباں ہمارا غیروں کے در پہ جھکنا ہم شرک جانتے ہیں  کرتا ہے رب کو سجدہ خوردوکلاں ہمارا  مشکل کشا وہی ہے حاجت روا وہی ہے  اس کا کرم ہمیشہ ہے پاسباں ہمارا  ملتی ہے اس کے در سے ہم کو ہر ایک نعمت  رب کریم ہی ہے روزی رساں ہمارا اس کانبی محمد ﷺ لاکھوں درود اس پر  محبوب ہے خدا کا اور جانِ جاں ہمارا  طاعت ہے اس کی بے شک اللہ کی اطاعت ہے مُتّبع اسی کا پیروجواں ہمارا گلدستۂ ہدایت ہیں اس کی سب حدیثیں  جن سے مہک رہا ہے یہ گلستاں ہمارا جس نے سکھائی آ کر ہم کو کتاب و حکمت  تعلیم سے ہے اس کی روشن جہاں ہمارا  منشور ہے ہمارا علمِ کتاب و سنّت پرچم یہی ہمارا یہ ہی نشاں ہمارا  مسلک جو ہے ہمارا وہ مسلکِ سلف ہے  یارب رہے سلامت یہ کارواں ہمارا  شاعر: علیم ناصری ؔ رحمہ اللہ

ترقی کے ہیں عنوانات اور پستی کے منظر ہیں

زباں صدمے سے ہے خاموش ، آنکھیں میری پتھر ہیں  کبھی بازار گھر سے دور تھے ، اب گھر کے اندر ہیں  کہاں تک ارتقا کی بے لگامی دیکھ پائیں گے  ہم آزادی کے دیوانے پر اپنی حد کے اندر ہیں  ہمارے ہاتھ سے ٹوٹیں گے یہ بت نو تراشیدہ  صنم خانے کا حصہ ہیں مگر ہم ابن آذرؑ ہیں  نہ پاسِ ابن آدم ہے نہ حرمت بنت حوا کی  نشانِ بے لباسی ہیں کہ آزادی کے پیکر ہیں ؟ ہمیں تو پتھروں کا دور پھر محسوس ہوتا ہے  ترقی کے ہیں عنوانات اور پستی کے منظر ہیں  شاعر: فیصل عظیم 

مرے خدا نے مجھے کتنا سرفراز کیا

مرے خدا نے مجھے کتنا سرفراز کیا  میانِ اہلِ ہوس مجھ کو بے نیاز کیا  تری نگاہ سے اسلوب خامشی سیکھا  اور اپنے آپ کو اہلِ خبر میں راز کیا تمام عمر مروت کی نذر کر ڈالی  ہمیشہ خود سے بچا دوسروں پہ ناز کیا جہاں بھی ذکر چھڑا تری ہمرہی کا وہیں  ہمی نے سلسلہ گفتگو دراز کیا جو اشک عزم مری آنکھ تر نہ کر پائے  انہی سے شام و سحر میں نے دل گداز کیا  عزم بہزاد