اشاعتیں

اکتوبر, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اب اپنے اپنے مقامات میں ہیں کھوئے ہوئے

اب اپنے اپنے مقامات میں ہیں کھوئے ہوئے جو ایک خون کے رشتے میں تھے پروئے ہوئے خلا کے دشت میں گرم سفر ہے قریۂ خاک بدن میں اپنے زمانوں کا غم سموئے ہوئے اجاڑ دے نہ کہیں آنکھ کو یہ ویرانی گزر گئی ہے اب اک عمر کھل کے روئے ہوئے تم اپنا وار سلامت رکھو کہ ہم نے بھی یہ طور دیکھے ہوئے ہیں، یہ دکھ ہیں ڈھوئے ہوئے کبھی کبھی یہ چراغ آسماں کے دیکھتے ہیں ہماری آنکھ میں یادوں کے زخم دھوئے ہوئے کھڑے تھے ہم سر ساحل یہ دیکھنے کے لیے کہ باخبر ہیں کہاں کشتیاں ڈبوئے ہوئے ​ خالد علیم