شعائر اسلام کا استہزا اور آزادئ اظہار کی حدود

بسم اللہ الرحمن الرحيم
گزشتہ کچھ سالوں سے دنيا بھر ميں اہانت مقدسات (blasphemy) كے افسوس ناك واقعات ايك تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں ، ان واقعات ميں خاص طور پر دين اسلام كے متعلق جرائم زيادہ نماياں ہیں۔ اس صورت حال ميں ہوناتو يہ چاہیے تھا كہ مسلمان اپنے دين متين كے ليے پہلے سے زيادہ حساس ہوجاتے اور اس كا جوانمردى سے دفاع كرتے مگر دكھ كى بات يہ ہے کہ بعض نام نہاد "تعليم يافتہ" مسلمان رفتہ رفتہ دينى حميت كى دولت سے محروم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر آزادى اظہار كا يہ معنى ہے كہ انسان بلا سوچے سمجھے كچھ بھی کہہ سكے تو يہ آزادى معاشرے کے ليے زہر قاتل ہے۔ ايك مقولہ ہے کہ: " تمہیں چھڑی گھمانے کی آزادی ہے مگر جہاں كسى كى ناک شروع ہوتی ہے وہاں تمہاری آزادی ختم ہو جاتی ہے ۔" آزادى اظہار كے نام پر دوسروں كى ذاتيات ميں مخل ہونے ، ان كے مذہبى جذبات كو مجروح كرنے اور ان كى مقدسات كا مذاق اڑانے كى اجازت قطعا نہیں دى جا سكتى۔ 
بحيثيت ايك مسلمان اور پاكستانى ميرے ليے بہت دكھ كا مقام ہے كہ اسلام اور دوقومى نظريے کے حامى ہونے كا دعوى كرنے والے ايك نظرياتى اشاعتى گروپ کے  آرگن اخبار ميں 07 اگست سنہ 2011ء كو شائع ہونے والے ايك كالم ميں اركان اسلام ميں سرفہرست ركن "توحيد" اور توحيد كى تلقين كرنے والوں كا مذاق اڑايا گیا ۔ ايك فوت شدہ عالم دين كے الفاظ كا حوالہ دے كر جو بات کہی گئی ہے وہ اس قدر ركيك اور افسوس ناك ہے كہ ايك مسلمان كا قلم اس كو نقل كرنے كى جسارت نہیں كرسكتا ۔
اسلام كے پانچ بنيادى اركان ہیں۔ ان ميں سرفہرست توحيد ہے۔ اسلام ميں داخل ہونے والا شخص اقرار توحيد_"لا الہ الا اللہ ") كيے بغير مسلمان نہیں کہلا سكتا ۔حضرت جبريل عليہ السلام نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائے اور صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كو تعليم دينے كى غرض سے نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استفسار كيا: مجھے بتائيے اسلام كيا ہے ؟ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:أن تؤمن بالله وملائکته وکتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خيره وشره ترجمہ: "اس بات کی شہادت دینا کہ اﷲکے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اﷲ کے رسول ہیں ۔نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور اگر استطاعت ہو تو بیت اﷲکا حج کرنا ۔" (متفق عليہ)
ہمارے معلم ، مربى و مرشد حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك فرمان مبارك ميں توحيد كو جہنم سے آزاد كردينے والا عمل بتايا ہےفإن الله قد حرم على النار من قال "لا إله إلا الله" يبتغي بذلك وجه الله ترجمہ: " اللہ تعالی اس انسان پر دوزخ حرام کردیتا ہے جو لا الہ الا اللہ كہے اور اس كى نيت صرف اللہ كى خوشنودى حاصل كرنا ہو۔"
جب كہ دوسرى طرف توحيد كى ضد شرك ہے جس كے متعلق كلام حكيم ميں صراحت سے مذكور ہے کہ يہ تمام اعمال كا غارت گر ہے ۔ ارشاد بارى تعالى ہے:
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ: یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہوجائے گا ۔ (سورة الزمر: آيت 65) 
جب اقرار توحيد اس قدر عظيم وسعيد عمل ہے اور شرك اس قدر تباہ كن تو كيا وجہ ہے كہ ايك مسلمان دوسرے انسانوں كو درد مندى سے توحيد كى دعوت نہ دے اور شرك نامى قبيح عمل سے بچانے كى كوشش نہ كرے جب كہ يہ حبيب مكرم حضرت محمد مصطفى صلى اللہ عليہ وسلم كى وصيت بھی ہو؟ 
بنى آدم كو توحيد كى دعوت دينے كے متعلق نبي آخر الزماں حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے واضح الفاظ ميں بار بار وصيت فرمائی ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ جب حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضي اللہ عنہ كو يمن روانہ فرمايا تو حكم ديا : " تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو۔ (فليكن أول ما تدعوهم إليه أن يوحدو الله تم انہیں سب سے پہلے اس بات کی گواہی کی طرف دعوت دینا وہ اللہ تعالی کی توحید کا اقرار کرلیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو اہل ثروت سے لے کر کے فقرا اور مساكين میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو ان کے عمدہ اور قیمتی اموال (بطور زكوة) لینے سے احتیاط کرنا اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ۔ ( متفق عليہ) 
اس حديث شريف سے يہ بات واضح ہے کہ دعوت اسلام ميں دعوت توحيد پہلا بنيادى فريضہ ہے۔ اگر كوئى اس كو قبول كرتا ہے تو وہ مسلمان ہے اور اس كے بعد ہی اسے باقى اسلامى اعمال بجا لانے كى دعوت دى جائے گی ۔ 
اگر قرآن مجيد كى سورة الأنبياء كا مطالعہ كيا جائے تو معلوم ہوتا ہے كہ دعوت توحيد صرف امت اسلام كا فريضہ ہی نہیں بلكہ اللہ سبحانہ وتعالى كے مبعوث كردہ تمام رسل كرام اپنے اپنے وقت ميں اقرار توحيد كرتے رہے اور دعوت توحيد كى اس عظيم ذمہ دارى كو نبھاتے رہے ہیں، فرمان رب كريم وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو ۔(سورة الأنبياء : 21)
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ
ترجمہ: ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ (سورة النحل : آيت 36) 
قائين كرام يہ توحيد ، شرك اور دعوت توحيد كے متعلق دين اسلام كى واضح تعليمات كا صرف ايك حصہ ہے جو مختصرا ذكر كرنے كى كوشش كى گئی ہے۔ اب ملاحظہ فرمائيے كہ توحيد كى دعوت كس قدر نيك افضل اور اعلى عمل ہے،كہ يہ تمام رسولوں كى دعوت كا تسلسل ہے۔ اس كے بعد بھی اگر عطاءالحق قاسمی نامی ايك مسلمان کالم كار اپنے قلم سے وہ بات لكھتا ہے جو اس تحریر میں نقل کرنا بھی دشوار ہے تو كس قدر تكليف دہ اور شرم ناك بات ہے ؟ 
وہ سعادت مند انسان جو دعوت توحيد ميں اپنی تمام تر صلاحيتيں شب وروز آزما رہے ہیں وہ ان شيطانى فقروں سے دل گیر نہ ہوں۔ سچائى كى دعوت کا ہر عہد ميں مذاق اڑایا جاتا رہا ہے اور يہ استہزا دعوت حق كے حاميوں کے اجرو ثواب ميں ہميشہ اضافے كا باعث ہی بنا ہے قرآن كريم كى يہ خوب صورت آيات كريمہ داعيان حق كى ہمت افزائى كے ليے كافى ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُون
گنہگار لوگ ایمان والوں کی ہنسی اڑایا کرتے تھے
وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُون
اور ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آپس میں آنکھ کےاشارے کرتے تھے 
 
وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِينَ
اور جب اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے تو دل لگی کرتے تھے 
وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَضَالُّونَ
اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے یقیناً یہ لوگ گمراه ہیں
 
وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ
یہ ان پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجے گئے
فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ
آج ایمان والے ان کافروں پر ہنسیں گے 
سورة المطففين: 29 تا 34
ان ركيك الفاظ كے ليے جن عالم دين كا حوالہ ديا گیا ہے وہ دارالعلوم ديوبندکے فارغ التحصيل تھے ، اب اس جہان ميں ہیں جہاں انسان اپنے اعمال كا حساب صاف صاف چكاتا ہے اور كوئى تاويل كام آتى ہے نہ كوئى كمك پہنچتى ہے لہذا ان سے تصديق اب ممكن نہیں، ليكن ان كے اولاد واحفاد كا فرض ہے كہ وہ اس قول تصديق يا ترديد كريں ، جب کہ مذكورہ كالم نگار سے ہمارى دردمندانہ درخواست ہے کہ اپنے الفاظ پر غور كريں اور اس رب سے ڈریں جس نے انسان كو پيدا كيا اور اس كو " بيان " سكھايا ۔ يہ قوت نطق ، يہ قوت تحرير اس كى دى ہوئى نعمتيں ہیں ان كو اس قادر مطلق كى شكر گزارى ميں استعمال كيا جائے تو نجات كا ذريعہ ، اور اس كے نازل كردہ دين كے استہزا كے ليے رو بہ عمل لايا جائے تو اعمال نامے كا سياہ باب ۔مقام حيرت ہے كہ معيارى صحافت كا دعويدار روزنامہ ، مسلمانوں کے ايك مقدس مہینے ميں ايسى دل آزار سطور كو شائع كرنے كى اجازت كيسے دے سكتا ہے؟ 
اللہ سبحانہ وتعالى ہميں ان اعمال كى توفيق دے جس سے وہ راضى ہوتا ہے اور ان اعمال سے محفوظ فرمائے جن سے اس كا غضب نازل ہوتا ہے۔

تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

اے وطن پاک وطن روح روان احرار