قلزمِ ہستی


قلزمِ ہستی
مانا کہ گنہگار ہوں پتلا ہوں خطا کا ​
خوگر ہوں بہرحال تری حمد وثنا کا
تجھ سے نہ ہو کیوں گردشِ ایام کا شکوہ ​
خالق ہے کوئی اور بھلا ارض و سما کا
اللہ کہاں ہیں وہ زمانے کے رفو گر ​
صد چاک گریباں ہے ملت کی قبا کا
وہ دور خراب ہے کہ مرے پاک وطن میں ​
ہر شخص نظر آتا ہے بمبار لڑاکا
ہیں ملک خداداد میں امریکا کے صدقے ​
ہر روز ڈرون حملے ہر اک روز دھماکا
مرجاتے ہیں وہ اور وں کو مارا نہیں کرتے ​
تازہ جو کیا کرتے ہیں آئین وفا کا
دیوانوں کو گزرے ہوئے اک عرصہ ہوا ہے ​
پھر بھی ہے ترے کوچے میں اک شور بلا کا
بے خوف جیا کرتے ہیں وہ مردِ خود آگاہ ​
دل میں جو نہیں رکھتے کوئی خوف قضا کا
ڈرتے ہیں صنم ضربِ براہیم سے اب بھی ​
فرعون کو ڈر اب بھی ہے موسی کے عصا کا

اک اُ س کے سوا اور کسی کو نہ پکارو ​
ٹہرے ہوئے پانی میں نہیں کرتے چھناکا

یہ قلزمِ ہستی ہے کہ ہے قطرہء ناچیز ​
صحرائے نفس ہے کہ یہ جھونکا ہے ہوا کا
انسان کو جو کچھ بھی دیا تو نے دیا خوب ​
اندازہ بھلا کیا ہو ترے جو دو سخا کا
وہ زہدوعبادت کی رِدا چاہیے مجھ کو ​
جس میں نہ کوئی داغ نہ دھبا ہو ریا کا
حاضر ہے مرا عود سخن حمد بداماں ​
احسان اٹھائے نہ کوئی بادِ صبا کا

کیا ہو گی خیال اس سے زیادہ مری تعریف ​
اک ادنی سا انسان ہوں بندہ ہوں خدا کا 

شاعر: خیال آفاقی
انتخاب و طباعت ناچیز 

تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

اے وطن پاک وطن روح روان احرار