رزق کی بےحرمتی اور ہماری ذمہ داری

کچھ دن پہلے ایک تقریب میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ تعلیم یافتہ لوگوں کا اجتماع تھا۔ ظہرانے کے وقفے میں بہت اچھے لوگوں سے ملاقات ہوئی لیکن افسوس ذرا دیر بعد رزق کی جو بے حرمتی ہوتی دیکھی بیان سے باہر ہے۔یہاں تک کہ  رزق زمین پر گرگیا اور گزرنے والے اس پر پاؤں رکھ کر گزرتے رہے۔مجھے دعوت پر جانا اسی لیے برا لگتا ہے کہ لوگ عجیب طریقے سے پلیٹ بھر لیتے ہیں پھر نہ کھاتے ہیں نہ کسی اور کے استعمال کے قابل  رہنے دیتے ہیں۔ایسے منظر دیکھ کر کئی دن تک دل خراب رہتا ہے۔ عام شادی بیاہ پر ایسا ہو تو سمجھ آتا ہے کہ تقریب میں ہر عمر اور طبقے کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ لیکن تعلیم یافتہ لوگ بھی اگر طلب سے زیادہ کھانا نکال کر ضائع کریں تو دکھ کے مارے سمجھ نہیں آتی کیا کیا جائے۔ تعلیم تو شعور دیتی ہے۔ کیا ایک باشعور انسان کو  معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کتنی طلب ہے اور اس کی پلیٹ میں کیا اضافی ہے؟ میرا جی چاہ رہا تھا کہ ان لوگوں کو دنیا کے قحط زدہ علاقوں کی تصویریں دکھاؤں تا کہ ہمیں رزق کے ہر لقمے کی قیمت کا احساس ہو۔ جو کھانا پیروں تلے آ کر ضائع ہوا اس سے بلاشبہ کئی انسانوں کی بھوک مٹائی جا سکتی تھی۔ اسی طرح دنیا کی کئی حصوں میں جو رزق ضائع ہو رہا ہے وہ کئی براعظموں پرپھیلے قحط اور غذائی کمی کا تریاق بن سکتا ہے۔ 
وہاں افسوس سے سر جھکائے مجھے اپنے بزرگوں کی باتیں یاد آ رہی تھیں جن کی محبت بھری تربیت ان سے جدا ہو کر بھی ہمارے ساتھ ہے۔ کتنے بھلے  لوگ تھے جو روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر گرا دیکھ کر کانپ جاتے تھے اور اسے اٹھا کر مناسب جگہ پر رکھ دیتے کہ کسی ذی روح کے کام آ جائے۔ میری نانی جان دسترخوان سمیٹتی تھیں تو روٹیوں کے بچے ٹکڑے اونچی جگہ رکھواتیں کہ پرندوں کے کام آ جائیں، آٹے کے بچے ہوئے ذرے مرغیوں کو ڈال دیے جاتے اور گوشت کے ٹکڑے وغیرہ بلیوں کے لیے مخصوص جگہ رکھوا دیتیں۔ میرے ابو جان کھانا کھاتے تو جلی ہوئی روٹی کا جلا حصہ احتیاط سے اتار کر باقی کھا لیتے، پلیٹ میں صرف اتنا نکالتے جتنی طلب ہوتی، کبھی پلیٹ میں کھانا نہیں چھوڑتے اور ہمیں بھی سمجھایا کرتے کہ رزق کی قدر کریں۔ 
میں خود تدریس سے وابستہ ہوں اس لیے سوچ رہی تھی کہ یہ بحیثیت اساتذہ ہماری ناکامی ہے۔ ہم نئی نسل 
کو وہ نہیں سکھا رہے جو ہمارے بزرگ ہمیں  سکھا کر ہماری پختہ عادت بنا کر گئے۔ نئی نسل کی تربیت اگر مشکل ہے تو ہمارے بزرگوں نے بھی ہماری تربیت میں ایسی ہی مشکل اٹھائی تھی لیکن وہ گھبرائے نہیں، مستقل مزاجی سے اپنا کام کرتے رہے یہاں تک کہ ہم نے ان سے کچھ نہ کچھ اثر لے لیا۔ کیا ہم اپنے ارد گرد انسانوں کو باشعور بنانے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں؟ یہ بہت بڑا سوال ہے جو ہماری زندگی کے بعد آخرت کے امتحان میں بھی ہم سے پوچھا جائے گا۔ ہم وہاں کیا جواب دے سکیں گے اگر آج اپنی ذمہ داری کو پورا نہ کیا۔

تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

اے وطن پاک وطن روح روان احرار