علامہ اقبال کے حضور


علامہ اقبال کے حضور 
تحریر: پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی علیگ
مارچ۲۷ ء کا وہ دن میری زندگی کا ایسا دن تھا جس کی چاندنی آج بھی میرے محسوسات کو جگمگائے ہوئے ہے ۔ یہ وہ دن تھا جب مجھ ایسے ہیچمدان کو زندگی میں پہلی بار نابغہءروزگار حکیم الامت علامہ اقبال کے حضور حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ راقم ان دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طبیہ کالج میں زیر تعلیم تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملتِ اسلامیہ کے دلوں میں قادیانیوں کے دل آزار و خود ساختہ معتقدات اور ان کی ژاژ خائیوں کے باعث اشتعال وبیزاری کا ایک طوفان برپا تھا اور پورے برعظیم میں نفرت کی فضا تھی ۔ پنجاب میں انجمن حمایتِ اسلام لاہور  نے اپنے ایک اجلاس میں جو علامہ اقبال رح کی صدارت میں ہوا باضابطہ اعلان کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر انجمن کے اداروں سے الگ کر دیا تھا ۔ پنجاب کے بعد علی گڑھ میں بھی طلبہ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردینے اور الگ کرنے کا مطالبہ کر رکھا تھا اور اس سلسلے میں مولانا ظفر علی خان اور سید عطاءاللہ شاہ  بخاری جیسی قومی شخصیات کی تقاریر یونیورسٹی میں گونج چکی تھیں ۔ طلبہ میں زبردست ہیجان برپا تھا کہ یکایک یہ انکشاف برقِ خاطف بن کر گرا کہ ڈاکٹر سر ضیاءالدین وائس چانسلر جامعہ علی گڑھ نے سر ظفراللہ کو کانووکیشن ایڈریس پرھنے کی دعوت دے دی ہے جسے ظفراللہ خان نے منظور کر لیا ہے ۔ ان دنوں ظفراللہ خان وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن تھے اور بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے تھے اور مسلمانوں کی مخالفت کے باوجود مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کے دعویدار تھے ۔
یہ خبران طلبہ کے لیے برقِ خاطف سے کم نہ تھی جو قادیانیوں کے بحیثیت غیر مسلم اقلیت علیحدگی کے حامی تھے ۔ چنانچہ طلبہ نے فیصلہ کیا کہ اس دعوت کو ہر حال میں منسوخ کیا جائے اور پرزور مخالفت کی جائے ۔ چنانچہ راقم الحروف ، قاری انوار صمدانی ، محمد شریف چشتی وغیرہ نے مل کر طے کیا کہ اس کے لیے علامہ اقبال سے رجوع کیا جائے اور اخبارات کے ذریعے بھی احتجاج کیا جائے ۔ چنانچہ الجمعیۃ اور زمیندار نے ادارئیے لکھے اور یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد کے اس فعل کی مخالفت کی ۔ طلبہ کے باہمی مشورے سے راقم علامہ اقبال سے رہنمائی حاصل کرنے  کے لیے لاہور روانہ ہوا۔ علامہ اقبال ان دنوں جاوید منزل میں مقیم تھے ۔ سہ پہر کو علامہ کی خدمت میں پہنچا ، ان دنوں صرف خاص لوگوں کو ملاقات کی اجازت تھی ۔ جب راقم نے اطلاع دی کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے طلبہ کا ہیغام لے کر حاضر ہوا ہوں تو فورا اذنِ باریابی مل گیا۔ علامہ اقبال ایک بغلی کمرے میں چارپائی پر تشریف فرما تھے ، سامنے چند کرسیاں رکھی تھیں ، شلوار قمیض میں ملبوس تھے ، ایک جانب بڑا تکیہ تھا ۔ میں نے ساری صورتِ حال بیان کی اور اس سلسلے میں وہ استفتاء بھی دکھایا جو ریلی میں مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد سعید سے قادیانیوں کی بابت حاصل کیا تھا اور جس پر مولانا سعید اور داود غزنوی اور مولانا احمد علی لاہوری کے دستخط بھی تھے۔ علامہ اقبال نے ساری صورت حال سننے کے بعد راقم کو ہدایت کی کہ فضل کریم درانی سے ملوں جو ہفتہ وار اخبار "ٹروتھ" کے ایڈیٹر تھے اور میمورنڈم تیار کر کے ٹائپ کے بعد لاوں ۔ راقم عرب ہوٹل گیا جہاں فضل کریم درانی مقیم تھے ۔ میمورنڈم کا مسودہ تیار کرا کے ٹائپ کے بعد دوبارہ علامہ کی خدمت میں حاضرہوا۔ علامہ نے اس پر دستخط کرنے کے بعد حضرت مولانا ظفر علی خان سے دستخط کرانے کی ہدایت کی ۔ چنانچہ مولانا اور دوسرے اکابر کے دستخط بھی حاصل کیے ، اس طرح میمورنڈم کے ایک طرف علمائے ملت اور دوسری طرف اکابرینِ ملت کے دستخط تھے جو جملہ ممبرانِ یونیورسٹی کورٹ اور طلبہ میں تقسیم ہوا جس کے نتیجے میں ظفراللہ خان کا کانووکیشن منسوخ ہو گیا ۔ دورانِ گفتگو علامہ نے یونیورسٹی کی ساری صورتِ حال معلوم کی اور ہدایت کی کہ قادیانیت کے ساتھ اشتراکیت کی بھی مخالفت کی جائے ۔ انہوں نے اس سلسلے میں سید ظفرالحسن صدر شعبہ اسلامیات کی خدمات کو سراہا اور پروفیسر ستار خیری اور پروفیسر عطاءاللہ کا ذکر بڑے اچھے انداز میں فرمایا۔ اس میمورنڈم سےقادیانی یونیورسٹی میں اقلیت تو قرار نہ پائے مگر عملا موت واقع ہو گئی ۔ اور عزائم خاک میں مل گئے ۔ علامہ کے ولولہ انگیز بیانات سے غلغلہ برپا ہو گیا اس لیے کہ ان کی رائے ملت کی نگاہ میں انتہائی اہم تھی ۔ علامہ مرحوم سے ایسی روشن ملاقات کے نقش آج بھی میرے دل پر ہرطرح رقم ہیں ۔
***************
حواشی از ڈاکٹر انورسدید :
حکیم عنایت اللہ نسیم صاحب کو طب کی اعلی تعلیم کے لیے ظفر علی خان نے ہی علی گڑھ بھجوایا تھا ۔ مسلمانوں کی اس علمی درسگاہ پر ۱۹۳۴ء میں قادیانیوں نے یورش کر رکھی تھی ۔ حکیم نورالدین کے دو صاحبزادے عبدالسلام اور عبدالمنان علی گڑھ میں تبلیغِ قادیانیت کے لیے بھیجے گئے تھے ۔ یونیورسٹی میں ہر سال ۲۱ اکتوبر کو یومِ تبلیغ منایا جاتا تھا ۔ حکیم عنایت اللہ نسیم نے یہ صورت حال دیکھی تو برداشت نہ کرسکے ۔ انہوں نے اپنے دوستوں میں سے حافظ صدیق احمد صدیقی ، حافظ فضل الرحمن انصاری اور محمد شریف چشتی کو ساتھ ملا کر ایک مجلسِ عمل بنائی اور مولانا ظفر علی خان کو علی گڑھ آنے اور طلبہ سے خطاب کرنے کی دعوت دی ۔
اس سے قبل قادیانی علی گڑھ کی لائل لائبریری میں سیرت کے نام پر ایک کانفرنس کا اعلان کر چکے تھے ۔ عنایت اللہ نسیم سوہدروی اس کانفرنس کو رکوانے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور ان کا پیغام عالیہ صحیح تناظر میں ابھارنے کا تہیہ کر چکے تھے ۔ انگریز وائس چانسلر مسٹر باتھم گھبرا گیا لیکن مسلمان طلبہ مصمم ارادہ کر چکے تھے ۔انہیں آفتاب ہال دینے سے انکار کر دیا گیا لیکن مولانا نسیم سوہدروی اسی ہال میں ظفر علی خان کی تقریر کروانے کا اعلان کر چکے تھے ۔ انہوں نے اجازت نامے کی پرواہ نہیں کی اور مولانا ظفر علی خان کو طلبہ کے جلوس میں لے کر آئے اور ہال پر قبضہ کر لیا۔ مولانا کی تقریر نے علی گڑھ کی فضا تبدیل کر دی ۔ آفتاب ہال میں بغیر اجازت جلسہ کرنے کا یہ دوسرا واقعہ تھا ۔ اس سے قبل مولانا محمد علی جوہر نے بغیراجازت تقریر کی تھی۔ علی گڑھ میں ہر طرف مسلمانوں کے نعرے گونج رہے تھے ۔
اس کامیابی نے حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی کے دینی جذبے کو بہت تقویت دی ، مولانا ظفر علی خان کا ہاتھ ان کی پشت پر تھا ۔ وہ ان کے فکری م دینی اور سیاسی رہنما تھے ۔ ۱۹۳۷ء میں ایک دفعہ پھر قادیانیوں نے سر اٹھایا۔ اس دفعہ علی گڑھی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید ضیاء الدین نے کانووکیشن ایڈریس کے لیے وائسرائے کونسل کے رکن سر ظفر اللہ خان کو دعوت دے دی ۔ حکیم نسیم سوہدروی ایک وفد لے کر علامہ اقبال کی خدمت میں لاہور پہنچے اور ان سے ایک میمورنڈم پر دستخط کرا لائے ۔ یہ میمورنڈم کانووکیشن سے پہلے علی گڑھ میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا گیا ۔ اس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا، سر ظفراللہ خان کا ایڈریس منسوخ کر دیا گیا ۔ حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی صاحب کی زندگی کے یہ دو واقعات ہمیشہ روشن رہیں گے ۔ ہمیشہ یاد کیے جائیں گے ۔
حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی اب اس دنیا میں نہیں ۔ وہ جتنی دیر زندہ رہے ان کا قلم خدمتِ قوم اور خدمتِ وطن میں مصروف رہا ۔ اسلام، پاکستان، اقبال ، قائداعظم اور ظفر علی خان ان کے مستقل موضوعات تھے ۔ ان کا آخری مقالہ دسمبر ۹۴ء میں ان کے انتقال کے دو دن بعد شائع ہوا۔ حق مغفرت کرے ، کیا عجب خدمت گزارِ قوم تھے ۔ [ڈاکٹر انور سدید]


تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

اے وطن پاک وطن روح روان احرار