استشراق کے متعلق اقبال کے تاثرات


پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ مشہور مستشرق اور فلسفے میں اقبال کے استاد تھے ۔ سید نذیر نیازی نے ایک جگہ آرنلڈ کی وفات کے بعد ہونے والی گفتگو کا یوں ذکر کیا ہے :
"
۱۷ کی صبح کو میں لاہور پہنچا ۔ حضرت علامہ ایک طرح سے منتظر ہی تھے ۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو اول ڈاکٹر انصاری مرحوم اور غازی موصوف کی خیریت مزاج دریافت کرتے رہے ، پھر احباب جامعہ بالخصوص ذاکر صاحب، عابد صاحب اور مجیب صاحب کا پوچھا ۔ باتوں باتوں میں ترکوں اور ترکی سیاست کا ذکر آ گیا اور پھر اس سلسلے میں نہ معلوم کس طرح اس روز کے اخبار کا ۔ میں نے عرض کیا آرنلڈ کاتو آپ نے سن ہی لیا ہو گا۔ متعجب ہو کر فرمایا: کیا؟ میں نے کہا صبح کے اخبار میں ان کے انتقال کی ۔۔۔ بس اتنا کہنا تھا کہ حضرت علامہ کی آنکھیں اشکبا ر ہو گئیں اور پھر سر جھکا کر چند لمحے خوب روئے ۔ یوں ان کے دل کا بخار ہلکا ہوا تو فرمایا:
Iqbal has lost his friend and teacher.
اقبال اپنے استاد اور دوست سے محروم ہو گیا۔
لیکن عجیب بات ہے کہ اتنے گہرے روابط اور تعلقِ خاطر کے باوجود جب میں نے آرنلڈ کے مرتبہء استشراق اور اسلام سے اس کی عقیدت کا ذکر چھیڑا تو فرمایا"اسلام ! اسلام سے آرنلڈ کو کیا تعلق ؟ "
میں نے کہا جب کوئی شخص بہ تحقیق اور طالب علمانہ اسلام پر قدم اٹھاتا ہے تو اس سے یہی توقع ہوتی ہے کہ اسلام کے بارے میں اس کی رائے اچھی ہو گی ، بلکہ شاید وہ خود بھی اس کی طرف مائل ہو، جیسے مثلا نپولین یا گوئٹے کے بارے میں کہا جاتا ہے ۔ پھر آرنلڈ تو دعوتِ اسلام بھی لکھ چکے ہیں ۔ 
فرمایا: " دعوت اسلام اور اس قسم کی کتابوں پر نہ جاو۔ آرنلڈ کی وفاداری صرف خاکِ انگلستان سے تھی ۔ وہی ان کا دین تھا اور وہی ان کی دنیا ۔ انہوں نے جو کچھ کیا انگلستان کے مفاد کے لیے کیا۔ میں جب انگلستان میں تھا تو انہوں نے مجھ سے براون کی تاریخِ ادبیات ِ ایران پر کچھ لکھنے کی فرمائش کی تھی ۔ لیکن میں نے انکار کر دیا، کیوں کہ مجھے اس قسم کی تصنیفات میں انگلستان کا مفاد کام کرتا نظر آتا تھا ۔ دراصل یہ بھی ایک کوشش تھی ایرانی قومیت کو ہوا دینے کی ، اس مقصد سے کہ ملتِ اسلامیہ کی وحدت پارہ پارہ ہو جائے ۔ بات یہ ہے کہ مغرب میں فرد کی زندگی صرف ملت کے لیے ہے اور وطنی قومیت کا تقاضا بھی ہی ہے کہ ملک اور قوم [دونوں ایک ہی چیز کے دونام ہیں ] کو ہربات پر مقدم رکھا جائے ۔ لہذا آرنلڈ کو مسیحیت سے غرض تھی نہ اسلام سے ، بلکہ سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر مستشرق علم و فضل کا وہی راستہ اختیار کر لیتا ہے جو مغرب کی ہوسِ استعمار اور شہنشاہیت کے مطابق ہو۔ ان حضرات کو بھی شہنشاہیت پسندوں اور سیاست کاروں کا دست و بازو تصور کرنا چاہیے ۔ "
پھر علی بخش کو بلایا اور اسی وقت لیڈی آرنلڈ کو تعزیت کا تار بھیجا ۔ اقتباس از مکتوبات  اقبال بنام نذیر نیازی

تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

اے وطن پاک وطن روح روان احرار