حج و عمرہ بار بار کرو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان ہر مجوسی فلسفے کا جواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ذی الحجہ کے پہلے دس دن سال کے افضل ترین دن ہیں، ایک مومن ان دنوں میں جو روحانی لذت محسوس کرتا ہے اس کا دل بھی گواہی دیتا ہے کہ ایسا ہی ہے۔ ہر طرف ایک اللہ کی عبادت کرنے والے نیکیوں کی دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، کوئی قربانی کے جانور تلاش کر رہا ہے کوئی احرام پہن کر اپنے رب کے گھر کی جانب پروانہ وار لپک رہا ہے، کسی کو صدقات میں دل کا سکون مل رہا ہے تو کوئی روزے رکھ کر پچھلے اور اگلے سال کے گناہوں کی بخشش کا طالب ہے۔ نیکیوں کے اس موسم بہار میں کچھ بدباطن لوگوں کی پرانی تکلیف جاگ جاتی ہے۔ مجوسی سلطنت کے احیا کا خواب جو اب بوسیدہ ہو کر تار تار ہو چکا ہے لیکن اس کے متروک بدبودار فلسفے اب بھی اتنی ہی شدت سے دہرائے جاتے ہیں۔ مجوسیوں کو سب سے زیادہ تکلیف حرم کی رونق سے ہوتی ہے، وہ رونق جو ہر مومن کی آنکھ کی ٹھنڈک ہے ان کی آشوب زدہ آنکھوں میں خار بن کر کھٹکتی ہے۔ دنیا اولمپک گیمز کے لیے جمع ہو تو ان کے منہ سے ستائش کے ڈونگرے برستے ہیں، نہ پیسے کے ضیاع کا خیال آتا ہے نہ یہ یاد رہتا ہے کہ غریب کا تن ننگا ہے، نہ ہر اولمپک کے لیے نئے سٹیڈیم کے اسراف پر دل دکھتا ہے، کسی فلم کے لیے کئی ملین پونڈ کا سیٹ لگے تو یہ سراہتے ہیں کہ فلم کی ڈیمانڈ تھی، لیکن جونہی حج کا موسم شروع ہو اور دو ان سلے کپڑوں میں ملبوس حاجی، اپنے اپنے خرچ پر سادگی سے لبیک اللھم لبیک کی روح پرور صدائیں بلند کرتے اپنے رب کے گھر کا قصد کریں،  ان کے نوحوں کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ ہوتی ہے شیطان کو آج بھی رحمان کی عبادت سے تکلیف ہوتی ہے۔ جب اذان ہوتی ہے شیطان کانوں میں انگلیاں ڈال کر روتا ہوا وہاں سے بھاگتا ہے، جب حج شروع ہوتا ہے حزب الشیطان کے نوحے اور ماتم دیکھنے والے ہوتے ہیں۔

نارِ حسد نے دل کو جلایا ہے یوں عدیم
یہ تو نشاں رہے گا مٹانے کے بعد بھی


ہر سال ان دکھاوے کے دانشوروں کو یہ غم لگتا ہے کہ قربانی تو گوشت جمع کرنے کا ذریعہ ہے اور حج وعمرہ مذہبی پکنک ہے۔ ان سب کے بے کار فلسفوں کے جواب میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کافی ہے کہ :تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ حج و عمرہ بار بار کرو، یہ دونوں عبادتیں غربت اور گناہوں کو مٹا دیتی ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کی ملاوٹ ختم کر دیتی ہے۔ اور حج مبرور کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں۔ " امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اپنی کتاب جامع الترمذی میں ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے" اس باب میں کئی دوسرے صحابہ مثلا: عمر، عامر بن ربیعہ،ابو ھریرہ، عبداللہ بن حبشی،ام سلمہ اور جابرکی احادیث بھی ہیں۔ " گویا ان سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہم تک پہنچایا ہے کہ جس کے پاس استطاعت ہے وہ حج و عمرہ بار بار کرے گو کہ یہ زندگی میں ایک بار فرض ہے۔
خلیل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کے بعد بیت اللہ کی رونق سے حسد کرنے والے چاہے جو کہیں۔ ایک مسلمان کو فرق نہیں پڑتا۔ اللہ ہمیں بھی ان میں بنا دے جو بار بار حج و عمرہ کریں اور مجوسی فلسفیوں کے سینوں پر مونگ دلیں۔

تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

اے وطن پاک وطن روح روان احرار