محبت جو دل بدل دے

 رمضان المبارک قریب آنے پر ہر مسلمان روحانی لحاظ سے خاص قسم کی خوش گوار کیفیت سے گزرتا ہے۔ علوم اسلامیہ کی تدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان دنوں لوگ  رمضان سے متعلق سوالات پوچھتے ہیں تو اہل اسلام کی اس مہینے سے محبت دیکھ کر اور بھی خوشی ہوتی ہے۔  شعبان کے  مبارک دن جب آپ اللہ سبحانہ وتعالی سے اس عظیم مہینے کی برکتوں تک پہنچنے کی دعا مانگ رہے ہوں اور گزشتہ رمضان کی حسین یادیں آپ کو اس سال مزید بہتر بننے کی کوشش کی ہمت دلا رہی ہوں، اس عالم میں آپ کو اچانک  طلبہ و طالبات سے ایسے سوالات موصول ہوں  جو  سوال کم اور معاشرے کے اخلاقی زوال کا اشارہ زیادہ ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے معطر فضا میں یکایک بدبو کا بھبکا آپ تک آ پہنچے۔ اس سے زیادہ دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ اتنے کم عمر،معصوم بچے اور بچیاں ایسے الم ناک مسائل کا شکار ہیں؟ وہ عمر جس میں والدین،تعلیمی ادارے اور درسی کتابیں ہی کل عالم ہوتی ہیں، اس میں انہوں نے کیسی فکریں پال لی ہیں؟ یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔ ان کے والدین، اساتذہ،  علماء، حکمرانوں، تعلیمی اداروں اور  ذرائع ابلاغ نے نئی نسل کو یہاں پہنچانے میں بہت محنت کی ہے۔ میرے نزدیک یہ بچے بچیاں قصوروار نہیں۔ ان کے بڑے ان کے مجرم ہیں۔ ابتدا وہاں سے ہوئی جب بڑوں نے  دینی حدود اور اعلی اخلاقی اقدار سے باہر قدم رکھا۔ بے راہروی اور آوارگی کو ترقی اور آزادی سمجھنے والوں نے خود کو تباہ کیا ساتھ میں اگلی نسل کی معصومیت بھی تباہ کر دی۔ قرآن مجید صاف صاف لفظوں میں ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ اللہ کی قائم کردہ حدود کیا ہیں اور
وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ 
 جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا۔ ( سورۃ الطلاق آیت 1)
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت ذرائع ابلاغ،علماء، حکومت  اور حتی کہ مسلم خاندان کے "بڑے" بھی بڑھ چڑھ کر اللہ کی حدوں کو پار کر رہے ہیں۔ دین سے علی الاعلان پھر جانے کو ارتداد کہتے ہیں، اور دینی حدود کو ایک ایک کر کے پامال کرنے کو فسق وفجور۔ علماء نے فسق کی تعریف یہی بتائی ہے کہ کبیرہ گناہ کرنا اور صغیرہ گناہوں پر ڈٹے رہنا۔ ہمارے معاشرے میں فسق اب عام عادت ہے۔  کوئی اقتدارو اختیار کے بارے میں اللہ کی حدیں بھول گیا ہے، کوئی کاروبار میں جائز ناجائز منافع کی حد کو پامال کر رہا ہے، کسی کو علم دین  دیا گیا تھا اور وہ فسق وفجورکو حلال کرنے میں دلیلیں تلاش کر کے لا رہا ہے، کسی کو یاد نہیں رہا کہ کون سا پیشہ حرام ہے،  اور کون سا رزق حلال، اور کسی کو جاتی عمر میں ایسی حسرت نے گھیرا کہ دنیا کی ہر پر لطف چیز سے مزہ اٹھانے کی ہوس میں  تفریح کی جائز حد بھول گئی ہے۔ 
یہ باشعور، باعلم، صاحب منصب، جہاں دیدہ، "بڑے بڑے" لوگ اپنی جان پر ظلم کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی  ہمارے معاشرے اور نئی نسل کو تباہ کر رہے ہیں۔ ان میں سے ہر بدنصیب کسی دن قبر میں اتر جائے گا لیکن اپنے سیاہ کرتوتوں سے جن لوگوں کی زندگی میں اندھیرے اتار گیا ہو گا وہ کب تک تڑپتے رہیں گے خدا جانتا ہے۔کسی ظالم حکمران کی رعایا، کسی بے عمل عالم کے اندھے مقلد، کسی صاحب خانہ کی مظلوم رعیت، جب تک باقی رہے گی اس کی بدعملی کی گواہی بن کر جیے گی۔
 نئی نسل کی معصوم گھائل روحوں کے سوال سن کر مجھے اپنے آنسوؤں پر ضبط نہیں رہا۔ ان کو حدود اللہ میں کبائر کا خلاصہ بتا کر کہا مجھے معلوم ہے گناہ  کو اس وقت چھوڑنا مشکل ہوتا ہے جب یہ شروع سے آپ کی عادت بنا دیا گیا ہو۔ لیکن یہی آپ کے ایمان کی آزمائش ہے۔ اپنے بڑوں کی حرکتوں کا عذاب آپ نے جھیل لیا، اب آپ  باشعور ہیں، بلوغت کے بعد آپ کی زندگی آپ کا اپنا امتحان ہے، بدل جائیے، اس زہر کو اگلی نسل کی رگوں میں مت اتارئیے ورنہ کسی دن وہ بھی کسی استاد کے سامنے آپ کے خلاف گواہی دیں گے۔ بدل جائیے، اور اللہ کو بتائیے کہ آپ کو اس سے اتنی محبت ہے کہ آپ نے برسوں پرانی عادتیں بدل ڈالیں۔ اس کی کتاب پڑھنا، دل ہی دل میں دہرانا عادت بنا لیجیے ۔وہ آپ کو وہی پاکیزہ اقدار سکھا دے گی جو ہر دور کے صالحین (نیک لوگوں)، صدیقین (سچے لوگوں)اور انبیاء کرام کی اعلی سیرت کا حصہ تھیں۔نیک دوستوں، حلال تفریح اور حلال مزوں کی عادت ڈالیے اور اس پر صبر کیجیے، یہ بھی عبادت ہے۔  جب بھی دِل پرانے نشے مانگے اسے بتائیے کہ امام ابن القیم فرماتے ہیں
" فالنفوس الشَّرِيفَة لَا ترْضى من الْأَشْيَاء إِلَّا بِأَعْلَاهَا وأفضلها وأحمدها عَاقِبَة ، والنفوس الدنيئة تحوم حول الدناءات ، وَتَقَع عَلَيْهَا كَمَا يَقع الذُّبَاب على الأقذار انتهى "الفوائد" (ص 177)
"نیک لوگ صرف اعلی، افضل اور آخرت کے لحاظ سے سب سے اچھی چیزوں کو ہی پسند کرتے ہیں۔ اور گندے لوگ گندگی کے گرد گھومتے گھامتے رہتے ہیں، اور مکھیوں کی طرح گندگی پر ہی گرتے ہیں"۔ (الفوائد ص 177 ترجمہ :راقمہ)
رہے اس دنیا کے مزے، یہاں کے عجائب اور تفریح تو اللہ کی کتاب کہتی ہے:
مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ ۖ وَمَا عِندَ اللَّـهِ بَاقٍ ۗ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٩٦مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٩٧
تمہارے پاس جو کچھ ہے سب فانی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہے وہ ہمیشہ رہنے والا (باقی ) ہے۔ اور صبر کرنے والوں کو ہم بھلے اعمال کا بہترین بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے (96)جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے(97) (سورۃ النحل 278)
اس دنیا کا کوئی گویا کتنا ہی سریلا گالے، خنزیر کے گوشت کا کتنا ہی لذیذ پکوان بنتا ہو، یہاں کے شعبدہ باز بھلے کتنے حیران کن کرتبوں والی فلم بنا دیں، اس دنیا کے زانی مرد اور زانیہ عورتیں جن کا نام فلم سٹار رکھ دیا گیا ہے کتنے ہی  اہتمام سے عریاں کر کے پیش کیے جائیں، رہیں گے گندگی کی پوت ہی، چاہے  ان کی شیطانی حرکات کو رقص کہا جائے یا فن، شراب پینے والے کمزور نفس مرد وزن کو کتنا ہی اعلی،شریف و بہادر بنا کر پیش کیا جائے، خدا کی حرام کردہ ہر چیز گندی ہی رہے گی،  اس دنیا کے سب  حلال  مزے آپ کے لیے خدا کا حسین تحفہ ہیں اور حرام مزے گندے ہیں، ان کو کتنا ہی سجایا جائے ان کی گندگی اور بدبو سے خود ان میں لتھڑے لوگ واقف ہیں۔ ان سے صبر (رک جانا)  ہی سمجھداری ہے۔ یہ راہ آسان نہیں، کچھ مشکل تو ہو گی لیکن اللہ کی محبت میں ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ دشتِ وفا کی اسی آبلہ پائی کا ثمر دنیا کے اس کنارے پر ہمارا منتظر ہے۔ امتحان صرف اتنا ہے کہ ہم شیطان والوں میں شامل ہوجاتے  ہیں یا اللہ والوں کے گروہ میں صبر سے جمے رہتے ہیں۔ اللہ کی کتاب بتاتی ہے کہ لوگ ایمان کے بعد بھی پھر جاتے ہیں، لیکن اللہ کو ان کی پرواہ نہیں ہوتی۔ اس کا دین نہیں بدلتا ہاں ماضی کے دین دار لوگ اپنی سعادت ختم کر کے کسی اور خوش نصیب کے لیے جگہ خالی کر دیتے ہیں۔ یہ نئے آنے والے باسعادت انسان وہ ہوتے ہیں جو اللہ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ایمان والوں کے سچے دوست ہوتے ہیں۔ یہ اپنے دین کا، اپنے دینی ساتھیوں، اپنے نبی ﷺ اور اپنے خدا سے وفا کرتے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں۔ کوئی ہے جو   خدا سے ایسی محبت کرے کہ وہ دل ہی بدل جائے جو بار بار پرانی باتیں یاد دلاتا ہے؟ کون ہے جواہل وفا کی فہرست میں اپنا نام شامل کروانے کی خاطر زندگی گزارے؟
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٥٤إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ﴿٥٥وَمَن يَتَوَلَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ﴿٥٦
اے ایمان والو! تم میں سے کوئی شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کولائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وه بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی وه نرم دل ہوں گے مسلمانوں پر اور سخت اور تیز ہوں گے کفار پر، اللہ کی راه میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواه بھی نہ کریں گے، یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالیٰ بڑی وسعت وا اور زبردست علم وا ہے (54)(مسلمانو)! تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں اور وه رکوع (خشوع وخضوع) کرنے والے ہیں (55)اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وه یقین مانے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب رہے گی(56) (سورۃ المائدۃ آیات 54، 55، 56، ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی رحمہ اللہ)


تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

اے وطن پاک وطن روح روان احرار