اشاعتیں

ماورا فکر و تخیل سے ہے پیکر تیرا​

ماورا فکر و تخیل سے ہے پیکر تیرا​ کیسے اک جھیل میں اترے گا سمندر تیرا ​ تیری عظمت کے نشانات ہیں کتنے روشن​ تابعِ حکم ہے خورشیدِ منور تیرا ​ آمدِ صبح کا جب دیتی ہے پیغام صبا​ ذکر ہوتا ہے گلی کوچہ میں گھر گھر تیرا ​ ثبت ہے جس پہ ابراہیمؑ کی مہرِ تعمیر​ ہم نے سجدوں سے بسایا ہے وہ محور تیرا ​ مدح خواں تیرے ہیں پیغمبرؐ مکی مدنی​ کیوں نہ لیں نام وضو کر کے سخنور تیرا ​ صحنِ کعبہ میں کہیں نصب مجھے بھی کر دے​ سنگِ اسود بھی تِرا میں بھی ہوں پتھر تیرا ​ پھر شرف تجھ کو ملا دیدِ حرم کا راسخ​ اوجِ گردوں پہ چمکتا ہے مقدر تیرا ​ شاعر: راسخ عرفانی از : ارمغانِ حرم انتخاب : ناچیز 

مسلم دنیا کی مشہور تحریکیں پابندیوں کی زد میں

گزشتہ کچھ عرصے میں  مسلم   دنیا کی کئی مشہور تحریکیں اور جماعتیں، اپنی ریاست کی جانب سے پابندیوں کی زد میں آئی ہیں۔  پاکستان میں پہلے سے  پابندی   کا شکار کالعدم  تحریک   طالبان پاکستان / ٹی ٹی پی جو بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح کسی صورت مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہی تھی ، ایک سنجیدہ فوجی آپریشن کے بعد حیران کن طور پر اسی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہوگئی جسے غیر اسلامی ، طاغوتی اور نجانے کیا کیا کہتے اس کے رہنما اور چمچے تھکتے نہیں ۔ اس وقت رابطوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ پاکستانی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ مذاکرات اولین ترجیح ہیں لیکن ناکام ہوئے تو آپریشن ضرور ہو گا۔ یہ وہ کام ہے جو پاکستانی حکومت اور فوج کو مل کر کو بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا لیکن یوں لگتا ہے کہ گزشتہ حکومتیں چوہے بلی کا کھیل جاری رکھنا چاہتی تھیں تا کہ مغرب سے امداد لگی رہے ۔ بہرحال دیر آید درست آید اللہ کرے کہ مذاکرات کامیا ب ہوں اور ضدی جاہلوں کی تحریک طالبان کو حصول علم کا موقع ملے ۔ یہ جنگلی منہ ہاتھ دھو کر قرآنی قاعدہ پکڑیں گے تو انہیں علم ہو گا کہ اسلام اس سے بالکل مختلف ہے جو ان کے بیانا...

میں تعبیروں کا تاجر ہوں کیا تم تعبیر خریدو گے​

میں تعبیروں کا تاجر ہوں کیا تم تعبیر خریدو گے​ کیاتم گم گشتہ و گم کردہ اپنی جاگیر خریدو گے ​ منظر میں کشادہ سینے ہیں اور پس منظر میں گولی ہے​ ہر ایک تصویر میں مظلوموں کے گرم لہو کی ہولی ہے​ سڑکوں پہ جو ہیں جو فریاد کناں ان ماؤں کی ڈنڈا ڈولی ہے​ کھچتی ہے جو میرے تصور میں غم کی تصویر خریدو گے​ میں تعبیروں کا تاجر ہوںکیا تم تعبیر خریدو گے ​ ڈل جھیل کے خون ملے پانی سے بھر کر کچھ جگ لایا ہوں​ پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ہیرے موتی اور نگ لایا ہوں​ گلیوں میں سسکتی لاشوں نے جو دی ہے و ہ شہ رگ لایا ہوں​ اُن سب نے بس اتنا پوچھا ہے تم کب  کشمیر  خریدو گے؟​ میں تعبیروں کا تاجر ہوںکیا تم تعبیر خریدو گے ​ اصحابِِ نبی ﷺکے گلشن کی کلیوں سے سجی کچھ چھڑیاں ہیں ​ سنت کے سچے موتی ہیں قرآن کی قیمتی لڑیاں ہیں​ کچھ عشق نبی ﷺکے حلقے ہیں کچھ خوف خدا کی کڑیاں ہیں ​ ہر طوق سے جو آزاد کرے کیا وہ زنجیر خریدو گے ؟​ میں تعبیروں کا تاجر ہوںکیا تم تعبیر خریدو گے ​ تکبیر کے پر ہیبت نعرے بھی توحیدی للکار بھی ہے ​ دشم...

نرالے سوالی (4)

بعض لوگوں کو سوال در سوال کی عادت ہوتی ہے پہلے سوال کا پورا جواب سنتے نہیں کہ اگلا داغ دیتے ہیں ، ایسے مواقع پر اپنا مورال بڑھانے کے لیے مجھے امام شعبی ہی یاد آتے ہیں ۔۔۔۔ ایک بار امام شعبی بتا رہے تھے کہ یہ روایت جھوٹی {موضوع} ہے کہ : سحری ضرور کرو چاہے ایک انگلی مٹی میں ڈال کر چاٹ لو۔ حاضرین میں سے ایک "عقل مند" نے بات کاٹ کر سوال کیا کونسی انگلی چاٹیں۔ امام شعبی نے پاؤں کا انگوٹھا دکھا کر کہا: یہ۔

حب رسول

حب رسولﷺ سما سکتی ہے کیونکر حبِ دُنی کی ہوا دل میں بسا ہو جب کہ نقش حبِ محبوب خدا دل میں محمد ﷺکی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے محمدﷺ کی غلامی ہے سند آزاد ہونے کی خدا کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی محمدﷺ کی محبت خون کے رشتوں سے بالا ہے یہ رشتہ دنیوی قانون کے رشتوں سے بالا ہے محمدﷺ ہے متاعِ عالم ِایجاد سے پیارا پدر، مادر، برادر، مال، جان، اولاد سے پیارا ​ شاہنامہ اسلام: حفیظ جالندھری 

ترانۂ توحید

ترانۂ توحید  توحید سے ہے قائم نام و نشاں ہمارا  موجود ہے از ل سے یہ کارواں ہمارا  اللہ کی عبادت ہے زندگی ہماری  بندے ہیں ہم اسی کے وہ مہرباں ہمارا غیروں کے در پہ جھکنا ہم شرک جانتے ہیں  کرتا ہے رب کو سجدہ خوردوکلاں ہمارا  مشکل کشا وہی ہے حاجت روا وہی ہے  اس کا کرم ہمیشہ ہے پاسباں ہمارا  ملتی ہے اس کے در سے ہم کو ہر ایک نعمت  رب کریم ہی ہے روزی رساں ہمارا اس کانبی محمد ﷺ لاکھوں درود اس پر  محبوب ہے خدا کا اور جانِ جاں ہمارا  طاعت ہے اس کی بے شک اللہ کی اطاعت ہے مُتّبع اسی کا پیروجواں ہمارا گلدستۂ ہدایت ہیں اس کی سب حدیثیں  جن سے مہک رہا ہے یہ گلستاں ہمارا جس نے سکھائی آ کر ہم کو کتاب و حکمت  تعلیم سے ہے اس کی روشن جہاں ہمارا  منشور ہے ہمارا علمِ کتاب و سنّت پرچم یہی ہمارا یہ ہی نشاں ہمارا  مسلک جو ہے ہمارا وہ مسلکِ سلف ہے  یارب رہے سلامت یہ کارواں ہمارا  شاعر: علیم ناصری ؔ رحمہ اللہ

ترقی کے ہیں عنوانات اور پستی کے منظر ہیں

زباں صدمے سے ہے خاموش ، آنکھیں میری پتھر ہیں  کبھی بازار گھر سے دور تھے ، اب گھر کے اندر ہیں  کہاں تک ارتقا کی بے لگامی دیکھ پائیں گے  ہم آزادی کے دیوانے پر اپنی حد کے اندر ہیں  ہمارے ہاتھ سے ٹوٹیں گے یہ بت نو تراشیدہ  صنم خانے کا حصہ ہیں مگر ہم ابن آذرؑ ہیں  نہ پاسِ ابن آدم ہے نہ حرمت بنت حوا کی  نشانِ بے لباسی ہیں کہ آزادی کے پیکر ہیں ؟ ہمیں تو پتھروں کا دور پھر محسوس ہوتا ہے  ترقی کے ہیں عنوانات اور پستی کے منظر ہیں  شاعر: فیصل عظیم 

مرے خدا نے مجھے کتنا سرفراز کیا

مرے خدا نے مجھے کتنا سرفراز کیا  میانِ اہلِ ہوس مجھ کو بے نیاز کیا  تری نگاہ سے اسلوب خامشی سیکھا  اور اپنے آپ کو اہلِ خبر میں راز کیا تمام عمر مروت کی نذر کر ڈالی  ہمیشہ خود سے بچا دوسروں پہ ناز کیا جہاں بھی ذکر چھڑا تری ہمرہی کا وہیں  ہمی نے سلسلہ گفتگو دراز کیا جو اشک عزم مری آنکھ تر نہ کر پائے  انہی سے شام و سحر میں نے دل گداز کیا  عزم بہزاد 

لبیک

لبیک  ​ بلندی ہے شایاں تری ذات کو ’’الٰہا بزرگی سزاوارِ تو‘‘ یہ دل اللہ اللہ دھڑکتا رہے ترا نام لب سے جدا تک نہ ہو میں دل کے مکیں* کا مکاں دیکھ لوں مرے آنسوؤ! مجھ کو رستہ تو دو جو اسود کو چھو لے وہ پارس بنے اسے بوسہ دینے کو آگے بڑھو بسا ہے جہاں نور ہی چار سو اسی وادیِ انتہا میں بسو اسی روشنی سے جلاؤ دیے اسی آگ میں عمر بھر اب جلو جو سوئے حرم لے کے جاتا نہ ہو ذرا سعدؔ اس راستے سے بچو شاعر: سعداللہ شاہ انتخاب از" ایک جگنو ہی سہی "​ * اللہ سبحانہ و تعالی عرش عظیم پر ہیں۔ ان کی یاد دل میں ہوتی ہے۔

آنے جانے کا کھیل جاری ہے ​

آنے جانے کا کھیل جاری ہے ​ کوئی کیا جانے کس کی باری ہے  آخر ِکار سب جدا ہوں گے  چار دن کی یہ رشتہ داری ہے  ​ یوں تو میٹھا بہت ہے جام حیات ​ آخری گھونٹ اس کا کھاری ہے  ​ سر پہ منڈلا رہا ہے ملک الموت ​ موت کا خوف دل پہ طاری ہے  ​ ایسے آغاز کی خوشی کیسی ؟ ​ جس کا انجام سوگواری ہے  ​ زندگی وقت کیا گزارے گی ​ وقت نے زندگی گزاری ہے  فیض کچھ اہتمام کر اس کا ​ منزل قبر سخت بھاری ہے  ​ شاعر نامعلوم

رب کعبہ ہے اعتماد مرا

رب کعبہ ہے اعتماد مرا  دینِ مرسلﷺ ہے اعتقاد مرا نعت بہر ِثواب لکھتا ہوں فن نہیں ہے رہینِ داد مرا مدحِ سرورﷺ رہے گی پائندہ  نام رکھے گا کون یاد مرا  کیا کروں گا میں لوٹ کر گھر کو  دل ہے طیبہ میں شاد باد مرا فیصلہ ہے کلام وسنت پر  کون ٹھکرائے اجتہاد مرا مرا خامہ ہے کفر کو شمشیر  لفظِ توحید ہے جہاد مرا عشق احمد ﷺ میں مست رہتا ہوں فقر اس پر ہے مستزاد مرا جب بھی حمد و ثنا لکھوں راسخ ٹوٹ جاتا ہے انجماد مرا  شاعر: راسخ عرفانی  اقتباس از نسیمِ منی 

دعائیہ

تو کرم کیش ہے تقصیر وخطا کام مرا تیری بخشش سے ہے کم ظرف مِرا ،جام مِرا محوِ حیرت ہوں کروں کیسے مخاطب تجھ کو کج ہیں الفاظ مِرے ، طرزِ سُخن خام مِرا حج کے میداں میں بھی ہوں شر م سے پانی پانی گرد آلود گناہوں سے ہے  احرام  مِرا لاکھ محتاط چلا ہوں میں تری راہوں میں  پھر بھی لرزیدہ رہا عزم بہرگام مرا اپنی رحمت کے سحابوں میں چھپا لینا مجھے جب کھلے نامہء اعمال سرِ عام مرا روزِ محشر جو حوالوں سے پکارا جائے  تیرے محبوب ﷺکے خدّام میں ہو نام مرا عِجز سے بار گہہِ حق میں  دعا  ہے راسخ ؔ دہر سے اٹھوں تو بالخیر ہو انجام مِرا راسخ عرفانی   از مجموعہءکلام: نکہتِ حرا

مسئلہ قادیانیت پر سٹیٹسمین کے جواب میں۔ علامہ محمد اقبال کی ایک تاریخی تحریر

مسئلہ قادیانیت پر سٹیٹسمین کے جواب میں تحریر: علامہ محمد اقبال   ​ (اخبار سٹیٹسمین،{دہلی} نے اپنی ۱۴ مئی ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں حضرت علامہ کا بیان ، قادیانی   اور جمہور مسلمان شائع کیا اور ساتھ ہی اس پر ایک تنقیدی اداریہ بھی لکھا ۔ اقبال رحمہ اللہ کا یہ مضمون دراصل اسی اداریہ کا جواب ہے جو ۱۰ جون ۱۹۳۵ء کو اخبار مذکور میں طبع ہوا۔) ​ میرے بیان مطبوعہ ۱۴ مئی پر آپ نے تنقیدی اداریہ لکھا ، اس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں ۔ جو سوال آپ نے اپنے مضمون میں اٹھا یا ہے وہ فی الواقعہ بہت اہم ہے اور مجھے مسرت ہے کہ آپ نے اس سوال کی اہمیت کو محسوس کیا ہے ۔ میں نے اپنے بیان میں اسے نظر انداز کر دیا تھا کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ قادیانیوں کی تفریق کی پالیسی کے پیش نظر جو انہوں نے مذہبی اور معاشرتی معاملات میں ایک نئی نبوت کا اعلان کر کے اختیار کی ہے خود حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں اور مسلمانوں کے بنیادی اختلافات کا لحاظ رکھتے ہوئے آئینی اقدام اٹھائے اور اس کا انتظار نہ کرے کہ مسلمان کب مطالبہ کرتے ہیں اور مجھے اس احساس میں حکومت کے سکھوں کے متعلق رویہ سے اور بھی تقویت ملی۔...

علامہ اقبال کے حضور

علامہ اقبال کے حضور  تحریر: پروفیسر حکیم   عنایت اللہ نسیم سوہدروی علیگ مارچ۲۷ ء کا وہ دن میری زندگی کا ایسا دن تھا جس کی چاندنی آج بھی میرے محسوسات کو جگمگائے ہوئے ہے ۔ یہ وہ دن تھا جب مجھ ایسے ہیچمدان کو زندگی میں پہلی بار نابغہءروزگار حکیم الامت علامہ اقبال کے حضور حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ راقم ان دنوں علی گڑھ   مسلم یونیورسٹی   طبیہ کالج   میں زیر تعلیم تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملتِ اسلامیہ کے دلوں میں قادیانیوں کے دل آزار و خود ساختہ معتقدات اور ان کی ژاژ خائیوں کے باعث اشتعال وبیزاری کا ایک طوفان برپا تھا اور پورے برعظیم میں نفرت کی فضا تھی ۔ پنجاب میں انجمن حمایتِ اسلام لاہور  نے اپنے ایک اجلاس میں جو علامہ اقبال رح کی صدارت میں ہوا باضابطہ اعلان کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر انجمن کے اداروں سے الگ کر دیا تھا ۔ پنجاب کے بعد علی گڑھ میں بھی طلبہ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردینے اور الگ کرنے کا مطالبہ کر رکھا تھا اور اس سلسلے میں مولانا ظفر علی خان   اور سید عطاءاللہ شاہ  بخاری جیسی قومی شخصیات ...

فکرِ اقبال اور قادیانی تحریک​

فکرِ اقبال   اور قادیانی   تحریک ​ تحریر :  علیم ناصری رحمہ اللہ ، مدیر الاعتصام  ​ ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں انگریز فاتح کی حیثیت سے مختارِکل بن گیا ۔ اس نے مغل سلطنت کے تاروپود بکھیر دِیے اور ہندو ریاستوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا ۔اس کو مسلمان قوم سے بہرحال خطرہ درپیش تھا کیوں کہ اس قوم میں جذبہء جہاد   کسی بھی وقت ابھر آنے کی توقع تھی۔ اس لیے اس نے اس کے فکری محاذ اور دینی عقائد پر ضربِ کاری لگانے کی ڈپلومیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور انگلستان اور دیگر یورپی ممالک سے عیسائی مشنری  [مبلغین اور دانشور] یہاں درآمد کرنے شروع کیے۔ یہی وہ صورتِ حال تھی جس پر اکبرالہ آبادی مرحوم نے کہا تھا ۔۔ ​ توپ   کھسکی پروفیسر پہنچے اب بسولا   ہٹا تو رندا ہے ​ یعنی حرب و ضرب [توپ و تفنگ] کے سامان کے بعد تعلیم و تبلیغ کے ہتھیار سے کام لینے کا وقت آ گیا۔ بسولا یعنی تیشہ کو سامانِ حرب سے تشبیہ دی ہے اور رندا کو تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ہموار کرنے کے عمل کے لیے بطورِاستعارہ استعمال کیا گیا ہے ۔ ​ ان مشنریوں کے مقابلے می...