مسلم دنیا کی مشہور تحریکیں پابندیوں کی زد میں


گزشتہ کچھ عرصے میں مسلم دنیا کی کئی مشہور تحریکیں اور جماعتیں، اپنی ریاست کی جانب سے پابندیوں کی زد میں آئی ہیں۔ 
پاکستان میں پہلے سے پابندی کا شکار کالعدم تحریک طالبان پاکستان / ٹی ٹی پی جو بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح کسی صورت مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہی تھی ، ایک سنجیدہ فوجی آپریشن کے بعد حیران کن طور پر اسی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہوگئی جسے غیر اسلامی ، طاغوتی اور نجانے کیا کیا کہتے اس کے رہنما اور چمچے تھکتے نہیں ۔ اس وقت رابطوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ پاکستانی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ مذاکرات اولین ترجیح ہیں لیکن ناکام ہوئے تو آپریشن ضرور ہو گا۔ یہ وہ کام ہے جو پاکستانی حکومت اور فوج کو مل کر کو بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا لیکن یوں لگتا ہے کہ گزشتہ حکومتیں چوہے بلی کا کھیل جاری رکھنا چاہتی تھیں تا کہ مغرب سے امداد لگی رہے ۔ بہرحال دیر آید درست آید اللہ کرے کہ مذاکرات کامیا ب ہوں اور ضدی جاہلوں کی تحریک طالبان کو حصول علم کا موقع ملے ۔ یہ جنگلی منہ ہاتھ دھو کر قرآنی قاعدہ پکڑیں گے تو انہیں علم ہو گا کہ اسلام اس سے بالکل مختلف ہے جو ان کے بیانات میں ہوتا ہے ۔ 
دوسری اہم پیش رفت سعودی عرب سے ہوئی جس نے اپنے ملک میں اخوان المسلمون نامی جماعت پر پابندی لگا کر اس کو دہشت گرد قرارد ے دیا ، اس کے علاوہ شام میں لڑنے والے گروپ جبہۃ النصرۃ کو بھی دہشت گرد قرار دے کر ملک سے باہر لڑنے والے سعودی شہریوں کو واپس آنے کے لیے پندرہ دن کی مہلت دی ۔ 
اس ی دوران متحدہ عرب امارات، بحرین اور سعودی عرب نے قطر سے اپنے سفراء کو احتجاجا واپس بلا لیا ۔ ان کا موقف ہے ہے کہ قطر نے مصری صورت حالکے بعد ان کے ملکوں میں بعض تنظیموں کی بے جا حمایت اور رقوم کی فراہمی سے علاقائی سکیورٹی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اورانھوں نے اپنی سلامتی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہے۔ 
اس علاقائی تحفظ کے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ ''جی سی سی کے تمام رکن ممالک کسی دوسرے ملک کے داخلی امور میں براہ راست یا بالواسطہ کوئی مداخلت نہیں کریں گے اور وہ ایسی تنظیموں یا افراد کی حمایت بھی نہیں کریں گے جن سے جزیرہ نما عرب کے ممالک کی سلامتی اور استحکام کو خطرات لاحق ہو؛سکتے ہوں۔خواہ یہ خطرات براہ راست سکیورٹی ورک یا سیاست پر اثرانداز ہونے سے متعلق ہوں''۔
یہ اقدامات بحرین ، متحدہ عرب امارات اور سعودیہ کی جانب سے کیے گئے، ان تمام ممالک کو شکوہ ہے کہ قطر ان کے ملکوں میں اخوانی سوچ کے حامیوں کو شہہ دے رہا ہے لیکن پاکستان میں اخوان کےاندھے حامیوں نے صرف سعودیہ کو تختہ مشق بنا رکھا ہے ۔ الحمدللہ عالمی پریس تک براہ راست رسائی رکھنےوالوں کو ان نام نہاد تحریکی نیوز ایجنسیوں کی پھیلائی ہوئی گپ کی حقیقت جلد معلوم ہو جاتی ہے۔ چونکہ اسلام پر ان کا قبضہ ہے اور یہ زمین میں اللہ کے خلیفہ ہیں اس لیے یہ سوچنا بھی منع ہے کہ یہ جھوٹ بکتے ہیں ۔ یہ صرف "رائے عامہ ہموار کرتے ہیں ۔ " عامۃ الناس بیچارے ان کی فیشنی داڑھیوں سے دھوکا کھاتے رہے ہیں اور کھاتے رہیں گے ۔ سعودی عرب نے اپنے ملک سعودی عرب میں موجود الاخوان المسلمون پر پابندی لگائی تھی ، لیکن 'اسلامی انقلابی صحافت' نے بدترین خیانت کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو یہ باور کروایا کہ یہ مصری اخوان پر پابندی ہے ۔ حالاں کہ یہ جھوٹ ہے ،سعودی عرب نے مصر کے اندرونی حالات پر براہ راست تبصرے سے ہمیشہ گریز کیا ہے کیوں کہ یہ عرب لیگ اور او آئی سی معاہدے کے خلاف ہے ۔ اور اخوان کی حمایت میں آج اچھلنے والے بھول گئے کہ جب سید قطب کو پھانسی کے بعد مصر کی سرزمین پر ان کے خاندان کو خطرہ تھا تو ان کے بھائی محمد قطب سمیت کئی اہم رہنماؤں کو سعودیہ نے ہی اپنے ملک میں پناہ دی ، البتہ شرط یہی تھی کہ وہ سعودیہ کی سرزمین میں بیٹھ کر کسی دوسرے ملک کی سیاست میں دخل نہیں دیں گے ۔ اور ساری دنیا میں سیاسی پناہ کا یہی اصول ہوتا ہے، آپ طاہر القادری پر یہی اعتراض کرتے ہیں کہ کینیڈا سے پاکستانی سیاست میں دخل دے رہا ہے اور خود چاہتے ہیں کہ قطر، سعودیہ اور کویت میں بیٹھ کر مصر کی سیاست میں انقلاب لائیں؟ محمد قطب تب سے اس سال تک سعودیہ میں ہی مقیم رہے ، یہاں کی جامعات میں پڑھایا اور یہیں فوت ہوئے ۔ لیکن اخوان کے نعرے باز حامی یہ حقائق جاننا ہی نہیں چاہتے ۔
جو بھی ہو عرب ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی اس دوری کا لازمی اثر شام سمیت دنیا کے ان تمام علاقوں پر پڑے گا جہاں کے مسلمان اکثریتی مسلم ممالک کی طرف امید کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ 
ایک اور خبر ترکی سے آئی جہاں وزیراعظم رجب اردگان نے نورسی کی نوری تحریک سے متاثر فتح اللہ گلن کی تحریک حذمت/ خدمت تحریک کے سکولوں کو ریاستی تحویل میں لینے کا فیصلہ کر لیا ۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر حکومت مخالف افراد کو دھمکاتے ہوئے انہوں نے فیس بک اور یوٹیوب پر پابندی کا بھی عندیہ دیا جس پر خوب لے دے ہوئی ۔ جی ہاں : ) یہ وہی رجب اردگان ہیں جنہوں نے مصر میں مرسی کی حکومت الٹنے پر احتجاج کیا تھا اور رابعہ کا چار انگلیوں کا نشان دیا تھا ۔ : ) وہ مصر تھا ، اپنے ملک میں انہوں نے بھی بظاہر سماجی اور تعلیمی خدمت تحریک کا ٹینٹوا دبانے کی تیاری کر رکھی ہے۔ [ اردگان کو فرشتہ قسم کا ہیرو قرار دینے والے اخوان کے حامیوں سے معذرت کے ساتھ حقائق یہی ہیں، گزشتہ دنوں پاکستان میں موجود نورسی تحریک سے وابستہ ترک خواتین سے بات ہوئی وہ آپ کے ہیرو رجب اردگان کو ویسا ہی کوس رہی تھیں جیسا آپ سعودیہ کو کوستے ہیں ، لیکن وہ زیادہ مہذب الفاظ استعمال کر رہی تھیں ۔ اخوان کے پاکستانی حامی تو تمیز کے دائرے سے نکلنے کو عین اسلامی حق سمجھتے ہیں ۔ ]

ٹرکی کے بعد حال ہی میں متحدہ عرب امارات نے 84 مسلح تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے جن میں القاعدہ ،حزب اللہ، دولت اسلامیہ عراق وشام (داعش) حرکۃ الاحرارالشام ، انصار اللہ یمن، انصارالشریعہ لیبیا، انصارالشریعہ تیونس ،انصار بیت المقدس مصر،الجماعۃ الاسلامیہ مصر،اجناد مصر شامل ہیں۔ 
اس وقت لیبیا ، تیونس اور الجزائر میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے اردو پریس رپورٹ نہیں کر رہا لیکن جو لوگ عربی مصادر تک رسائی رکھتے ہیں ان کو معلوم ہو گا کہ کیا قیامت برپا ہے ۔ لیبی انتخابات میں اخوان کی بری طرح شکست ہوئی ، آج لیبیا میں درجن سے زائد " اسلامی" تحریکیں ہیں جو بے دریغ آپس میں جنگ میں مصروف ہیں مسلمان کا اسلحہ مسلمان کا خون بہا رہا ہے ۔ یہ فتنہ نہیں تو کیا ہے؟ ہم کب تک آنکھیں بند کیے اسلامی انقلاب کے خواب میں مست رہیں گے؟ مسلمان کا اتنا خون غزہ میں یہودیوں کے ہاتھو ں نہیں بہا جتنا یہ مسلح گروہ بہا رہے ہیں ۔ ان کو ایک نظر یہاں دیکھا جا سکتا ہے:
http://www.alarabiya.net/ar/north-africa/libya/2014/07/21/تعرف-على-وجوه-الميليشيات-والمعارك-في-ليبيا.html
ان میں انصارالشریعۃ القاعدہ کی حامی ہے، درع لیبیا، ثوار لیبیا، ہر گروہ بزعم خود انقلابی ہے یا جہادی ہے لیکن یہ سب آپس میں ایسی جنگ میں مصروف ہیں کہ لیبیا کی صورت بگڑ کر رہ گئی ہے ، سفارت خانوں پر حملے ہو رہے ہیں، دوسرے ملکوں کا سفارتی عملہ قتل کر دی اجاتا ہے ، غیر مسلموں کا اغوا اور قتل عام ہے ۔ کیا یہی اسلامی تعلیمات ہیں؟
؟افسوس ان دہشت گردوں کو روکنے والی مسلم حکومتوں کو برا بھلا کہنے والوں کو لیبیا اور عراق کی حالت زار دیکھ کر بھی ہوش نہیں آیا
پابندیوں اور جکڑ بندیوں کا شکار یہ سب مسلم تحریکیں اور جماعتیں مذہبی یا روحانی خیال کی جاتی ہیں ۔ لیکن افسوس کہ خلافت یا شریعت کے نفاذ کے لیے گلا پھاڑ کر چلانے والے گروہوں سے لے کر روحانی مٹھاس بانٹنے کے علمبرداروں میں اس بات کا کوئی شعور موجود نہیں کہ
-
حکمران کو امر بالمعروف کے اسلامی آداب کیا ہیں ؟ 
-
مسلم حکمرانوں کے خلاف مسلح اقدامات یا مسلم ملک میں انارکی پھیلانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ 
-
مسلم ریاستوں اور ریاستی اداروں کی کمزوری کا فائدہ کون اٹھا سکتا ہے ؟ 
-
اپنے ملک میں اپنی پولیس ، اپنی فوج کے ساتھ پتھراو، جلاو ، گھیراو ، توڑ پھوڑ کا بدصورت معرکہ کرنے والوں کو یاد نہیں رہا کہ وہ اپنے وطن کے اثاثوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں ، حکومتیں بدلتی رہتی ہیں وطن تو وہی رہتا ہے اور جب سرحدوں کے باہر سے حملہ ہوتا ہے تو اہل وطن اور وطن ہی ڈھال بنتے ہیں ۔ 
-
ایک ریاست کی کیا اہمیت ہے اور اس کا نہ ہونا یا ہاتھ سے جاتا رہنے کا کیا مطلب ہے ؟
-
ان تحریکوں نے بڑے پیمانے پر تحریکی سر پھرے اور علامہ قرضاوی جیسے {خود کش حملوں کو جائز قرار دینے والے} مفتی ضرور پیدا کیے کہ جوان خون کو جوش دلانا دنیا کا سب سے آسان کام ہے ، لیکن ان تحریکوں کے کوتاہ بین قائد یہ بھول گئے کہ بڑے بڑے شاطر غیر مسلم دشمنوں کی موجودگی میں ہوش کتنا اہم ہے ؟ علامہ قرضاوی کے اپنے بیٹوں میں سے کوئی ایک فلسطین میں خود کش حملے میں نہیں پھٹا ، نہ ہی قرضاوی نے خود ایسی کوئی جہادی کوشش کی ۔ اس فتوے نے عالم اسلام میں فساد ضرور بپا کیا ۔
-
نوجوانوں کے جوش کو بوتل کی جن کی طرح باہر نکالنا بہت آسان ہے لیکن واپس بند کرنا ناممکن ، یہی صورت حال عالم اسلام میں بار بار پیش آتی رہی ہے مگر افسوس تحریکوں سے وابستہ افراد حقیقت پسندانہ تجزئیے اور فیصلے کے لیے تیار نہیں ۔
ایک ادنی مثال: حال ہی میں کالعدم پاکستانی تحریک طالبان اورپاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات کے دوران اسلام آباد میں کچہری پر حملہ ہوا۔ مذاکرات خطرے میں پڑ سکتے تھے ۔ ٹی ٹی پی کے ترجمان نے کہا ہم حملہ آور" احرار الہند" کو نہیں جانتے، مولانا سمیع الحق کابہت "سنجیدہ" بیان آیا کہ طالبان سنجیدگی سے پتہ کررہے ہیں یہ احرارالہندکون ہیں اور وہ فیس بک سے ان تک پہنچ بھی گئے ہیں ۔ : ) کوئی طالبان سے پوچھے کہ جناب یہ افراتفری تو آپ ہی کی پھیلائی ہوئی ہے اب کسی اور نے اس سے فائدہ اٹھا لیا تو آپ اسے کس طرح غلط قرار دے سکتے ہیں جب آپ کے اپنے ہاتھ اسی گند میں لتھڑے ہیں ؟ 
ان مضحکہ خیز بیانات سے ان مظلوموں کی زندگی واپس نہیں آسکتی جو اس حملے میں جان سے گئے ۔ کیا ہم غیر ریاستی مسلح ، پرتشدد تحریکوں کی سنگینی کو صرف تب سمجھیں گے جب ہمارا کوئی پیارا ان کے ہاتھوں جان گنوائے گا؟ 
علوم اسلامیہ کی ایک ادنی طالبہ ہونے کی حیثیت سے میں ذمہ داری سے کہہ سکتی ہوں کہ مسلم حکمرانوں کو نفاذ شریعت میں سستی کے طعنے دینے والی ،اسلام کے نام پر بننے والی سیاسی ہوں یا مسلح تحریکیں، دینی علم سے دوری کا بدترین نمونہ ہیں ۔اسلامی رہنما  کوئی مقدس گائے نہیں ہیں کہ ان پر تنقید نہ کی جائے ۔ نہ ہی اسلامی تحریکیں قانون سے بالاتر ہیں ۔ جس ملک میں رہنا ہے وہاں کے قوانین کی پابندی کریں ، زیادتی کی صورت میں قانونی جد وجہد کریں ۔ 
جب یہ اسلامی رہنما حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو نیٹو سپلائی کو کفار کی رسد کہہ کرنعرے لگواتے ہیں ، اور جب خود کو اسی صوبے میں حکومت مل جاتی ہے جہاں سے نیٹو سپلائی جاتی ہے تو فرماتے ہیں کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے نیٹو سپلائی کھول دیں گے ۔ تب کفر اور اسلام کا مسئلہ ہائکورٹ کے حکم سے جائز ہو جاتا ہے؟ بات یہ ہے کہ انہیں جذبات میں اونچا بولنے کی عادت ہے ۔ان پرتشدد تحریکوں کے حامی اور ہمدرد سمجھتے ہیں کہ یہ پابندیاں مغرب کی سازش ہیں اور مسلم دنیا کے حکمران محض مغرب کے مقلد، حالاں کپہ س حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مذہبی جماعتوں کے متعلق ابتدا سے تنقید ہوتی رہی ہے، آج یکایک شروع نہیں ہوئی ،یہ مسلم علماء کے ایمان دار اور بیدار مغز ہونے کا ثبوت ہے کہ وہ بظاہر دین دار نظر آنے والوں کی اصلاح بھی کرتے رہے ہیں ، اگر کچھ لوگوں نے مطالعہ نہ کیا ہو تو الگ بات ہے ورنہ الگ جماعت بنانے ، بیعت کرنے ، امیر کہلوانے سے لے کر چندے اور جہاد فنڈ مانگنے تک ہر مسئلے پر بات ہو چکی ہے، مختلف جماعتوں کی تاریخ اور نظریاتی اتار چڑھاؤ پر بھی سیر حاصل بحثیں ہوتی رہی ہیں لیکن جماعتوں کے پرجوش حامی عموما اپنے جماعتی لٹریچر کے قیدی اور کھلے مطالعے کے عادی کم ہی ہوتے ہیں، اس لیے ذرا مختلف رائے پڑھ کر اعصابی تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے نام پر بننے والی ان جماعتوں اور تحریکوں میں جیسے جیسے تشدد کا رجحان آتا گیا ریاستی طاقتوں کو ان کی جانب متوجہ ہونا پڑا۔ یہ ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ غیر ریاستی مسلح تنظیموں کو ان کی حدود بتا دی جائیں، جو جماعتیں اپنے کارکنوں سے مقامی امیر جماعت کی غیر مشروط اطاعت کا حلف لیتی ہوں ان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ حکمران کی اطاعت اور اس کے خلاف اسلحہ اٹھانے کے متعلق اسلامی حکم کو نظر انداز کریں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو تسلیم کرنا ان کے لیے دشوار ہو رہا ہے۔
مذہبی سیاسی تنظیموں میں خود احتسابی کا کوئی غیرجانب دار میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے ان کے امراء سے لے کر صف اول رہنماوں تک فکری و علمی شخصیات کہیں نظر نہیں آتیں ۔ یہ سستے ، جذباتی اشتعال انگیز بیانات دینے والے قائدین کے ہاتھوں میں ہیں جو بے علم ، بے عمل اور بے بصیرت ہیں ۔ میگا فون پر حکمرانوں کا محاسبہ کرنے والوں نے شاید ہی یہ سوچنے کی زحمت فرمائی ہو کہ حکمران کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آداب کیا ہیں؟  جب تک  اپنا اور اپنی تحریکوں کا ذمہ دارانہ محاسبہ نہیں کریں گے یہ لوگ سوائے سر پھٹول کے کوئی حقیقی  انقلاب لانے سے قاصر رہیں گے ۔ 

تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

اے وطن پاک وطن روح روان احرار