نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

بسم اللہ الرحمن الرحيم 
نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی اور خانگی زندگی کے متعلق غلط فہمیوں اور اعتراضات کا ایک  شافی جواب مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے دیا ہے۔ ذیل میں  الرحیق المختوم کا باب خانہ نبوت پیش کیا جا رہا ہے تاکہ طلبہ علم کے کام آ سکے۔ یاد رہے کہ یہ باب اس سے پہلے یونی کوڈ میں انٹرنیٹ پر موجود نہیں تھا۔ 

خانہء نبوت

1-ہجرت سے قبل مكہ ميں نبي صلى اللہ عليہ وسلم كا گھرانہ آپ اور آپ كى بيوى حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا پر مشتمل تھا۔ شادى كے وقت آپ كى عمر پچیس سال تھی اور حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا كى عمر چاليس سال۔ حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا آپ كى پہلى بيوى تھیں اور ان كے جيتے جی آپ نے كوئى اور شادى نہیں كى ۔ آپ كى اولاد ميں سے حضرت ابراہیم كے سوا تمام صاحبزادے اور صاحبزادياں ان ہی حضرت خديجہ کے بطن سے تھیں۔ صاحبزادگان ميں سے تو كوئى زندہ نہ بچا البتہ صاحبزادياں حيات رہیں ۔ ان كے نام يہ ہیں ۔ زينب، رقيہ، ام كلثوم، اور فاطمہ ۔ زينب كى شادى ہجرت سے پہلے ان كے پھوپھی زاد بھائى حضرت ابو العاص بن ربيع سے ہوئى۔ رقيہ اور ام كلثوم كى شادى يكے بعد ديگرے حضرت عثمان رضي اللہ عنہ سے ہوئی۔ حضرت فاطمہ كى شادى جنگ بدر اور جنگ احد كے درميانى عرصہ ميں حضرت علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ سے ہوئی اور ان كے بطن سے حسن ، حسين، زينب اور ام كلثوم رضوان اللہ عليہم اجمعين پیدا ہوئیں۔
معلوم رہے كہ نبي صلى اللہ عليہ وسلم كو امت كے بالمقابل يہ امتيازى خصوصيت حاصل تھی کہ آپ مختلف اغراض كے پیش نظر چار سے زيادہ شادياں كر سكتے تھے ۔ چنانچہ جن عورتوں سے آپ نے عقد فرمايا ان كى تعداد گيارہ تھی جن ميں سے نو عورتيں آپ كى رحلت كے وقت حيات تھیں اور دو عورتيں آپ كى زندگی ہی ميں وفات پا چكى تھیں (يعنى حضرت خديجہ اور ام المساكين حضرت زينب بنت خزيمة رضي اللہ عنہما) ان كے علاوہ مزيد دو عورتيں ہیں جن كے بارے ميں اختلاف ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا ان سے عقد ہوا تھا يا نہیں۔ ليكن اس پر اتفاق ہے كہ انہیں آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس رخصت نہیں كيا گیا۔
ذيل ميں ہم ان ازواج مطہرات كے نام اور ان كے مختصر حالات ترتيب وار پیش كر رہے ہیں۔
2- 
حضرت سودہ بنت زمعة : ان سے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا كى وفات كے چند دن بعد نبوت کے دسويں سال ماہ شوال ميں شادى كى۔ آپ سے پہلے حضرت سودہ اپنے چچيرے بھائى سكران بن عمرو كے عقد ميں تھیں اور وہ انتقال كر كے انہیں بیوہ چھوڑ گئے تھے۔
3-
حضرت عائشہ بنت ابي بكر صديق رضي اللہ عنہماان سے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے نبوت كے گیارھویں برس ماہ شوال ميں شادى كى ، يعنى حضرت سودة سے شادى كے ايك سال بعد اور ہجرت سے دو برس پانچ ماہ پہلے۔ اس وقت ان كى عمر چھ برس تھی۔ پھر ہجرت کے سات ماہ بعد شوال سنہ 1 هجرى ميں انہیں رخصت كيا گیا۔ اس وقت ان كى عمر نو برس تھی اور وہ باكرہ تھیں۔ ان كے علاوہ كسى اور باكرہ عورت سے آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے شادى نہیں کی۔ حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى سب سے محبوب بيوى تھیں اور امت كى عورتوں ميں على الاطلاق سب سے زيادہ فقيہ اور صاحب علم تھیں۔
4-
حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب رضي اللہ عنہماان كے پہلے شوہر خنيس بن حذافہ سہمى رضي اللہ عنہ تھے، جو بدر اور احد كے درميانى عرصہ ميں رحلت كر گئے اور وہ بیوہ ہو گئیں۔ پھر رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے شادى كر لى ۔ شادى كا يہ واقعہ سنہ 3 ہجرى كا ہے۔
5-
حضرت زينب بنت خزيمہ رضي اللہ عنہايہ قبيلہ بنو ہلال بن عامر بن صعصعہ سے تعلق ركھتی تھیں۔ مسكينوں پر رحم ومروت اور رقت ورأفت كے سبب ان كا لقب ام المساكين پڑ گیا تھا۔ يہ حضرت عبد اللہ بن جحش رضي اللہ عنہ كے عقد ميں تھیں۔ وہ جنگ احد ميں شہید ہو گئے تو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے سنہ 4 ہجرى ميں ان سے شادى كر لى۔ مگر صرف آٹھ ماہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى زوجيت ميں رہ كر وفات پا گئیں۔
6-
ام سلمہ ہند بنت ابى اميہ رضي اللہ عنہايہ ابو سلمہ رضي اللہ عنہ کے عقد ميں تھیں۔ جمادى الآخرة سنہ 4 ہجرى ميں حضرت ابو سلمہ رضي اللہ عنہ كا انتقال ہو گیا تو ان كے بعد شوال سنہ 4 ہجری ميں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے شادى كر لى ۔
7-
زينب بنت جحش بن رياب رضي اللہ عنہا : يہ قبيلہ بنو اسد بن خزيمة سے تعلق ركھتی تھیں اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم كى پھوپھی كى صاحب زادى تھیں۔ ان كى شادى پہلےحضرت زيد بن حارثہ رضي اللہ عنہ سے ہوئی تھی جنہیں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كا بيٹا سمجھا جاتا تھا ۔ خاتمہ ء عدت كے بعد اللہ تعالى نے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كو مخاطب كرتے ہوئے يہ آيت نازل فرمائىفلما قضى زيد منها وطرا زوجنكها (37:33)"جب زيد نے ان سے اپنی ضرورت پورى كر لى تو ہم نے انہیں آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى زوجيت ميں دے دیا"۔
انہیں کے تعلق سے سورہ احزاب كى مزيد كئى آيات نازل ہوئیں جن ميں متبنى (لے پالك) كے قضيے كا دو ٹوک فيصلہ كر ديا گیا -- تفصيل آگے آ رہی ہے --- حضرت زينب رض سے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى شادى ذى قعدہ سنہ 5 ھ ميں یا اس سے کچھ عرصہ پہلے ہوئی۔ 
8-
جويرية بنت حارث رضي اللہ عنہاان كے والد قبيلہ خزاعہ کی شاخ بنو المصطلق کے سردار تھے۔ حضرت جويريہ بنو المصطلق كے قیدیوں ميں لائى گئی تھیں اور حضرت ثابت بن قيس بن شماس رضي اللہ عنہ کے حصے میں پڑی تھیں۔ انہوں نے حضرت جويريہ سے مكاتبت كر لى يعنى ايك مقررہ رقم كے عوض آزاد كر دينے كا معاملہ طے كر ليا۔ اس كے بعد رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى طرف سے مقررہ رقم ادا فرما دى اوران سے شدى كرلى ۔ يہ شعبان 5 ھ يا 6 ھ كا واقعہ ہے۔
9-
ام حبيبہ رملہ بنت ابي سفيان رضي اللہ عنہمايہ عبيد اللہ بن جحش كے عقد ميں تھیں اور اس کے ساتھ ہجرت كر كے حبشہ بھی گئی تھیں ليكن عبيد اللہ نے وہاں جانے کے بعد مرتد ہو كر عيسائى مذہب قبول كر ليا اور پھر وہیں انتقال كر گيا ليكن ام حبيبہ رضي اللہ عنہا اپنے دين اور اپنی ہجرت پر قائم رہیں۔ جب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے محرم 7 ھ ميں عمرو بن امية ضمرى كو اپنا خط دے كرنجاشى كے پاس بھیجا تو نجاشى كو يہ پیغام بھی ديا کہ ام حبيبہ رضي اللہ عنہا سے آپ كا نكاح كر دے۔ اس نے ام حبيبہ رضي اللہ عنہا كى منظورى كے بعد ان سے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا نكاح كر ديا اور شرحبيل بن حسنہ کے ساتھ انہیں آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى خدمت ميں بھیج ديا ۔
10-
حضرت صفية بنت حيي بن اخطب رضي اللہ عنہايہ بنى اسرائيل سے تھیں۔ اور خيبر ميں قيد كى گئیں، ليكن رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے انہیں اپنے ليے منتخب فرما ليا اور آزاد كر كے شادى كر لى ۔ يہ فتح خيبر سنہ 7 ھ كے بعد كا واقعہ ہے۔
11-
حضرت ميمونہ بنت حارث رضي اللہ عنہايہ ام الفضل لبابة بنت حارث رضي اللہ عنہا كى بہن تھیں۔ ان سے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے ذى قعدہ سنہ 7 ھ ميں عمرہء قضا سے فارغ ہونے __ اور صحيح قول كے مطابق احرام سے حلال ہونے ___ كے بعد شادى كى ۔
یہ گيارہ بيوياں ہوئیں جو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كے عقد ميں آئیں اورآپ صلى اللہ عليہ وسلم كى صحبت ورفاقت ميں رہیں۔ ان ميں سے دو بيوياں يعنى حضرت خديجہ اور حضرت زينب ام المساكين كى وفات آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگی ہی ميں ہوئی۔ اور نو بيوياں آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد حيات رہیں۔ ان كے علاوہ دو اور خواتين جو آپ كے پاس رخصت نہیں كى گئیں ان ميں سے ايك قبيلہ بنو كلاب سے تعلق ركھتی تھیں اور ايك قبيلہ كندہ سے۔ يہی قبيلہ كندہ والى خاتون جونيہ كى نسبت سے معروف ہیں ۔ ان كا آپ صلى اللہ عليہ وسلم سے عقد ہوا تھا يا نہیں اور ان كا نام ونسب كيا تھا اس بارے ميں اہل سير كے درميان بڑے اختلافات ہیں جنكىى تفصيل كى ہم كوئى ضرورت محسوس نہیں كرتے۔
جہاں تك لونڈیوں كا معاملہ ہے تو مشہور یہ ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے دو لونڈیوں كواپنے پاس ركھا: ايك ماريہ قبطيہ كو جنہیں مقوقس فرمانروائے مصر نے بطور ہديہ بھیجا تھا ان كے بطن سے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے جو بچپن ہی ميں 28 يا 29 سوال سنہ 10 ھ مطابق 27 جنورى سنہ 632ء كو مدينہ ميں انتقال كر گئے۔ 
دوسرى لونڈی ريحانہ بنت زيد تھیں جو يہود كے قبيلہ بنو قريظہ سے تعلق ركھتى تھیں۔ یہ بنو قريظہ کے قيديوں ميں تھیں ۔ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے انہیں اپنے ليے منتخب فرمايا تھا اور وہ آپ كى لونڈی تھیں۔ ان كے بارے ميں محققين كا خيال ہے کہ كہ انہیں نبي صلى اللہ عليہ وسلم نے بحيثيت لونڈی نہیں رکھا تھا بلكہ آزاد كر كے شادى كر لى تھی ليكن ابن قيم كى نظر ميں پہلا قول راجح ہے۔ ابو عبيدہ نے ان دو لونڈیوں كے علاوہ مزيد دو لونڈیوں كا ذكر كيا ہے جن ميں سے ايك كا كا نام جميلہ بتايا جاتا ہے جو كسى جنگ ميں گرفتار ہو كر آئيں تھیں اور دوسرى كوئى اور لونڈی تھیں جنہیں حضرت زينب بنت جحش نے آپ كو ہبہ كيا تھا۔ 
یہیں ٹھہر كر رسول اللہ صلى اللہ عليہ سولم كى حيات مباركہ كے ايك پہلو پر ذرا غور كرنے كى ضرورت ہے ۔ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنی جوانى كے نہايت پر قوت اور عمدہ ايام تقريبا تيس برس صرف ايك بيوى پر اكتفا كرتے ہوئے گزار دئیے اور وہ بھی ايسى بيوى پر جو تقريبا بڑھیا تھیں يعنى پہلے حضرت خديجہ رض اور پھر حضرت سودة رض پر۔ تو كيا يہ تصور كسى بھی درجے ميں معقول ہو سكتا ہے کہ اس طرح اتنا عرصہ تنہا گزار دينے کے بعد جب آپ بڑھاپے كى دہليز پر پہنچ گئے تو آپ كے اندر يكا يك جنسى قوت اس قدر بڑھ گئی کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كو پےدرپے نو شادياں كرنا پڑیں؟ جى نہیں ! آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى كى زندگی کے ان دونوں حصوں پر نظر ڈالنے كے بعد كوئى بھی ہوشمند آدمى اس تصور كو معقول تسليم نہيں كرسكتا۔ حقيقت يہ ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اتنى بہت سارى شادياں كچھ دوسرے ہی اغراض ومقاصد كے تحت كى تھیں جو عام شاديوں كے مقررہ مقصد سے بہت ہی زيادہ عظيم القدر اور جليل المرتبہ تھے۔ 
اس كى توضيح يہ ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضي اللہ عنہما سے شادى كر كے حضرت ابو بكر وعمر رضي اللہ عنہما كے ساتھ رشتہ ء مصاہرت قائم كيا ،اسى طرح حضرت عثمان رضي اللہ عنہ سے پے در پے اپنی دو صاحبزاديوں حضرت رقيہ رض پھر حضرت ام كلثوم كى شادى كر كے اور حضرت علي رضي اللہ عنہ سے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رض كى شادى كر كے جو رشتہائے مصاہرت قائم كيے ان كا مقصود يہ تھا كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم ان چاروں بزرگوں سے اپنے تعلقات نہايت پختہ كر ليں كيونكہ یہ چاروں بزرگ پيچیدہ ترين مراحل ميں اسلام كے ليے فدا كارى و جاں سپارى كا جو امتيازى وصف ركھتے تھے وہ معروف ہے۔
عرب كا دستور تھا كہ وہ رشتہ ء مصاہرت كا بڑا احترام كرتے تھے۔ ان كے نزديك داماى كا رشتہ مختلف قبائل كے درميان قربت كا ايك اہم باب تھا اور داماد سے جنگ لڑنا اور محاذ آرائى كرا بڑے شرم اور عاركى بات تھی ۔ اس دستور كو سامنے ركھ كر رسل اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے چند شادياں اس مقصد سے كيں كہ مختلف افراد اور قبائل كى اسلام دشمنى كا زور توڑديں اور ان كے بغض ونفرت كى چنگارى بجھا ديں۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ رضي اللہ عنہا قبيلہ بنى مخزوم سے تعلق ركھتی تھیں جوابو جہل اور خالد بن وليد كا قبيلہ تھا ۔ جب نبي صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے شادى كر لى تو خالد بن وليد ميں وہ سختى نہ رہی جش كا مظاہرہ وہ احد ميں كر چکے تھے ، بلكہ تھوڑے ہی عرصے بعد انہوں نے اپنی مرضى اور خوشی سے اسلام قبول كر ليا ۔
اسى طرح جب آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو سفيان كى صاحبزادى حضرت ام حبيبہ سے شادى كر لى تو پھر ابو سفيان آپ کے مدمقابل نہ آيا اور جب حضرت جويريہ اور حضرت صفيہ آپ كى زوجيت ميں آگئیں تو قبيلہ بنى المصطلق اور قبيلہ بنى نضير نے محاذ آرائى چھوڑ دى ۔ حضور صلى اللہ عليہ وسلم كے عقد ميں ان دونوں بيويوں کے آجانے كے بعد تاريخ ميں ان كے قبيلوں كى كسى شورش اور جنگی تگ ودو كا سراغ نہيں ملتا ، بلكہ حضرت جويريہ تو اپنى قوم كے ليے سارى عورتوں سے زيادہ بابركت ثابت ہوئيں كيونکہ جب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے شادى كر لى تو صحابہ كرام نے ان كے ايك سو گھرانوں كو جو قيد ميں تھے آزاد كر ديا اور كہا كہ يہ لوگ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كے سسرالى ہیں ۔ ان كے دلوں پر اس احسان كا جو زبردست اثر ہوا ہو گا وہ ظاہر ہے۔
ان سب سے بڑی اور عظيم بات يہ ہے كہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم ايك غير مہذب قوم كو تربيت دينے ، اس كا تزكيہ نفس كرنے اور تہذيب وتمدن سكھانے پر مامور تھے جو تہذيب وثقافت سے تمدن كے لوازمات كى پابندى سے اور معاشرے كى تشكيل وتعمير ميں حصہ لينے كى ذمہ داريوں سے بالكل نا آشنا تھی، اور اسلامى معاشرے كى تكميل جن اصولوں كى بنياد پر كرنى تھی ان ميں مردوں اور عورتوں كے اختلاط كى گنجائش نہ تھی لہذا عدم اختلاط كے اس اصول كى پابندى كرتے ہوئے عورتوں كى براہ راست تربيت نہيں كى جا سكتى تھی حالانكہ ان كی تعليم وتربيت كى ضرورت مردوں سے کچھ كم اہم اور ضرورى نہ تھی ، بلكہ كچھ زيادہ ہی ضرورى تھی۔ 
اس ليے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس صرف يہی ايك سبيل رہ گئى تھی كہ آپ مختلف عمراور لياقت كى اتنى عورتوں كو منتخب فرماليں جو اس مقصد كے ليے كافى ہوں پھر آپ انہيں تعليم وتربيت ديديں، ان كا تزكيہ نفس فرما ديں ، انہيں احكام شريعت سكھلا ديں اور اسلامى تہذيب وثقافت سے اس طرح آراستہ كر ديں كہ وہ ديہاتى اور شہرى ، بوڑھی اور جوان ہر طرح كى عورتوں كى تربيت كر سكيں اور انہيں مسائل شريعت سكھا سكيں اور اس طرح عورتوں ميں تبليغ كى مہم كے ليے كافى ہو سكيں۔ 



تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

اے وطن پاک وطن روح روان احرار