اشاعتیں

آخری آرزو​

آخری آرزو ​ شورش کاشمیری بپاسِ خاطرِ احباب کس عنوان پر لکھوں؟ کہاں تک داستانِ دردِ دل، دردِ جگر لکھوں ؟ بہت دن گم شدہ یادوں کا میں نے تذکرہ لکھا کہاں تک نظم میں افسانہ ء شام و سحر لکھوں؟ مقدر کا نوشتہ تھا دل مرحوم کا ماتم اب اس پر اور کیا بارِ دِگر، بارِ دِگر لکھوں؟ خطابت کے بہت سے معرکے سر کر لیے میں نے  سیاسی تذکرے کب تک قلم کو توڑ کر لکھوں ؟ بحمداللہ قصائد کی زباں آتی نہیں مجھ کو  عزیزانِ گرامی قدر عرضِ مختصر لکھوں؟ بس اتنی آرزو ہے عمر کی اس آخری رو میں  خدا توفیق دے تو سیرتِ خیرالبشرﷺ لکھوں

پہنچے ہوئے بزرگ

فٹ پاتھ پر ميرے دائيں جانب ٹيلى فون بوتھ نظر آئے تو ميں اپنی نشست سے اٹھا جيب ميں سے سكے نكالے اور لاہور كا نمبر ملا ديا ۔ دوسرى طرف ميرا بيٹا ياسر تھا يہ سائنسدان بھی بہت " پہنچے ہوئے بزرگ " ہيں ۔ ميں گھر سے ہزاروں ميل دور سنگاپور كے ايك ريستوران ميں بيٹھا ہوا ہوں اور ميرا بيٹا لاہور كے علامہ اقبال ٹاؤن ميں ہے درميان ميں سمندر اور صحرا حائل ہيں اور ہم ايك دوسرے سے اس طرح باتيں كر رہے ہيں جيسے آمنے سامنے بيٹھے ہوں ۔ جس بزرگ نے ٹيلى فون ايجاد كيا اس كے مقابلے ميں ميں سائیں کوڈے شاہ كى بزرگى كا كيسے قائل ہوں جاؤں جو بھنگ پی كر سويا رہتا ہے اور جب جاگتا ہے تو لوگوں كو سلانے كى كوشش كرتا ہے؟ ميں نے فون پر على اور عمر كى چہکاريں سنيں اور پيشتر اس كے كہ نازى سے بات ہوتى ميرى جيب سكوں سے خالى ہو گئی اور اس كے ساتھ ہی رابطہ منقطع ہو گيا ۔ حقيقتوں اور توہمات ميں سے توہمات كو بس يہی برترى حاصل ہے كہ اس ميں جہالت كا سكہ چل جاتا ہے چنانچہ جيب خالى بھی ہو تو ايك سُوٹا لگا كر كہيں بھی اور كسى سے بھی بات ہو سكتى ہے ! (عطاءالحق قاسمی  از دنیا خوب صورت ہے)

2500 میں خوشیوں کی ضمانت ​

2500 میں خوشیوں کی ضمانت ​ ایک پاكستانى چینل پر چلنے کرشماتی لاکٹ کے اشتہار کا علم ہوا۔ بقول بنانے والوں کے یہ کرشماتی لاکٹ سونے اور ہیرے سے بنا ہے اور اس كو پہننے والے كے ليے زندگی کی سارى خوشيوں كى ضمانت دى جاتى ہے۔ لاکٹ کا "ہدیہ " صرف 2500 روپے ہے۔  سمجھ نہيں آتى كہ جن كے پاس زندگی كى سب خوشياں فراہم كرنے والا لاکٹ ہے وہ كاروباراور اشتہار كى محنت ميں كيوں لگے ہيں ؟ ان كے گھر تو نوٹوں کے درخت لگنے چاہئیں؟ اور سونے اور ہيرے والے زيور صرف 2500 ميں دست ياب ہو سكتے ہيں تو ملك بھر کے صرافہ بازاروں ميں کيوں لوٹ مچی ہے؟ كيا ایک مسلمان قوم كى ان تمام احمقانہ باتوں كى وجہ يہی نہيں کہ ہم اس بنيادى عقيدے سے انحراف كر بيٹھے ہيں کہ نفع و نقصان عطا کرنے والی صرف اللہ سبحانہ و تعالى كى ذات ہے : وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ‌ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِ‌دْكَ بِخَيْرٍ‌ فَلَا رَ‌ادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ‌ الرَّ‌حِيمُ ﴿١٠٧﴾ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنّ...

عظیم اور اعلی فقط ایک تو ہے

عظيم اور اعلى فقط ايك تو ہے جہانوں سے بالا فقط ايك تو ہے ہوا بند كيڑے كو پتھر كے اندر وہ جس نے ہے پالا فقط ايك تو ہے وہ جس نے سدا اپنے بندے كے سر سے ہر آفت كو ٹالا فقط ايك تو ہے ہمارے دلوں سے سدا دور كر دے جو كلفت كا جالا فقط ايك تو ہے خطا كار بندے كى سارى خطائيں بھلا دينے والا فقط ايك تو ہے وہ ہے جس كى قدرت كى ہر بات انوكھی وہ سب سے نرالا فقط ايك تو ہے مصائب كى دلدل ميں گھرتے ہوؤں كو وہ جس نے سنبھالا فقط ايك تو ہے گنہ گار بزمی كے تاريک دل كو جو بخشے اجالا فقط ايك تو ہے خالد بزمی

پاکستانی خواتین میں دین داری کا رجحان

برطانوى جريدے گارڈين نے رواں ماہ كى ابتدا ميں پاکستانی خواتین میں دین داری کے بڑھتے ہوئے رجحان كے متعلق Jason Burke كا مضمون شائع كيا ہے ۔ مضمون كے مطابق گزشتہ دس برس ميں پاكستانى خواتين خاص طور پر امير اور تعليم يافتہ خواتين مذہب اسلام كى جانب زيادہ مائل ہو رہی ہيں ، بتايا گيا ہے كہ كس طرح مساجد ميں خواتين كى حاضرى بڑھی ہے۔ (دوسرے لفظوں ميں وہابی ہو گئی ہيں : ) ) مضمون نگار نے بنيادى طور پر يہ دکھڑا رويا ہے كہ Apple MacBook استعمال كرنے والى خوشحال خواتين، بزنس كالج كى طالبات ، بينك كى آئى ٹی ڈوژن ميں كام كرنے والى تكنيكى ماہر خواتين كو مذہب اسلام بھا گيا ہے۔ وہ قرآن مجيد پڑھنے ميں دل چسپی لے رہی ہيں ، اپنی مرضى سے نقاب ، حجاب يا سكارف پہنتى ہيں ، پنج وقتہ نمازى ہو گئیں ہيں اور قيامت يہ كہ .... ان كا كہنا ہے ان كو كسى نے مجبور نہيں كيا ۔ زيادہ زور اس بات پر ہے كہ مذہب پسندى كى يہ نئى لہر پچھلے دس سال ميں بڑھی ہے۔ اس لہر كا ذمہ دار اس نے سعوديہ اور كويت جيسى خليجى رياستوں كے اثر ونفوذ كو بھی ٹھہرايا ہے۔ (وہی گھسى پٹی باتيں) جيسن نے بينك آف پنجاب كى آئى ٹی ڈوژن كى مثال دى جہاں سارى خا...

ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا

ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا ديوار سے بھونچال كو روكا نہیں جاتا داغوں كى ترازو ميں تو عظمت نہیں تلتى فيتے سے تو كردار كو ناپا نہیں جاتا فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں لگتے تلوار سے موسم كوئى بدلا نہیں جاتا چور اپنے گھروں ميں تو نہیں نقب لگاتے اپنی ہى كمائى كو تو لوٹا نہیں جاتا اوروں کے خيالات كى ليتے ہیں تلاشى اور اپنے گریبان ميں جھانكا نہیں جاتا فولاد سے فولاد تو كٹ سكتا ہے ليكن قانون سے قانون كو بدلا نہیں جاتا ظلمت كو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتى شعلوں كو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا طوفان ميں ہو ناؤ تو كچھ صبر كيا جائے ساحل پہ کھڑے ہو کے تو ڈوبا نہیں جاتا ! دريا كے كنارے تو پہنچ جاتے ہیں پياسے پياسوں کے گھروں تك كوئى دريا نہیں جاتا ! اللہ جسے چاہے اسے ملتى ہے مظفر عزت كو دكانوں سے خريدا نہیں جاتا !   شاعر: مظفر وراثی    ٹرانسكرپشن:راقمہ

داعیاتِ دین حفظہن اللہ برساتی جھینگروں کے نرغے میں

الحمد للہ و كفى وسلام على عبادہ الذين اصطفى وبعد ... قارئين كرام ، السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاتہ، جس وقت راقمہ يہ سطور رقم كر رہی ہے برساتى جھينگروں کے بے سرے راگوں نے آسمان سر پر اٹھا ركھا ہے ، برساتى جھينگروں كى عجيب نفسيات ہوتى ہے ، ايك كسى كونے سے سَر نكال كر مبہم سا سُر نكالتا ہے، دوسرا جواب ميں صدا ديتا ہے، تيسرا ہاں ميں ہاں ملاتا ہے ، اور پھر مل جل كر باجماعت بنا سمجھے بنا سوچے وہ شور اٹھتا ہے كہ كان پڑی آواز سنائى نہيں ديتى ۔ برساتى جھينگر... الامان الحفيظ ۔ سائبر دنيا ميں بھی برساتى جھينگروں جيسے بے سوچے سمجھے پکے راگ الاپنے والوں كى كوئى كمى نہيں ۔ جس طرح گاؤں كى چوپالوں ميں بعض بھائى كے مردہ گوشت كے شوقين كسى كا ذاتى تذكرہ شروع كرتے ہيں اور پھر بنا سوچے سمجھے بےتُكى ہانکتے جاتے ہيں، اسى طرح قوم كمپيوٹر لٹريٹ ہو گئی، چوپالوں سے اٹھ كر فورمز پر آ بيٹھی ، ليكن وہی بےہودہ عادتيں ساتھ اٹھا لائى ، ذوق سقيم كى تسكين آج بھی بہنوں بھائيوں كا مردہ گوشت كھانے سے ہوتى ہے۔ كہنے كو داعيانِ دين كا اكٹھ ہے ليكن دراصل داعياتِ دين كى گوشت خورى جارى ہے ۔ جناب شوق سے ...

اتنی خاموشی بھی اچھی نہیں ہے لوگو

یوں اک پل مت سوچ کہ اب کیا ہو سکتا ہے اک لمحے کی اوٹ بھی فردا ہو سکتا ہے ان آنکھوں کے اندر بھی درکار ہیں آنکھیں چہرے کے پیچھے بھی چہرہ ہو سکتا ہے کچھ رُوحیں بھی چلتی ہیں بیساکھی لے کر آدھا شخص بھی پُورے قد کا ہو سکتا ہے کاندھے کَڑیَل کے ہوں اور گٹھڑی بڑھیا کی بوجھ اٹھا کر بھی جی ہلکا ہو سکتا ہے مُجھ سے مِل کر بھی وہ میرا حال نہ پوچھے ساون بھی کیا اتنا سُوکھا ہو سکتا ہے ؟ اتنی خاموشی بھی اچھی نہیں ہے لوگو۔۔۔ سنّاٹوں سے بھی ہنگامہ ہو سکتا ہے اس دنیا میں ناممکن کچھ نہیں مظفر ؔ دودھ بھی کالا شہد بھی کڑوا ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ مظفرؔ وارثی ۔۔۔۔۔۔

کیا عورت مجتہدہ یا فقیہہ ہو سکتی ہے؟

سائل : کیا عورت مجتہدہ، مفتیہ یا فقیہہ ہو سکتی ہے؟ مفتى صاحب : ہر گز نہیں ، قطعی نہیں ، بالکل نہیں!!!! سائلہ : مفتی صاحب حافظ ذھبی کے نزدیک ۔۔۔۔ مفتى صاحب :ناقصات عقل ودین ۔ یہ فورم مردوں کے پسينے سے چلتا ہے كوئى عورت بول كر دکھائے ادھر! سائل : مفتی صاحب ميں مرد ہوں جی ، حافظ ذھبی کے نزدیک ۔۔۔۔ مفتی صاحب : میں حافظ ذھبی کو فقیہ نہیں مانتا ، وہ تو محدث ہیں ، محدث غیر فقیہ ہوتا ہے سائل : مفتی جی امہات المؤمنین اور صحابيات رضی اللہ عنہن کے فتاوی ۔۔۔ ؟ مفتی صاحب : رضیہ سلطانہ کی حکمرانی جیسے تاریخی نظائر شرعی حجت نہیں! سائل : مفتی جی ، ميں مفتى ہوں يہ آپ کے پڑوس سے ، ميرا سوال ہے ۔۔۔۔ مفتی صاحب : تم مفتی ہو  تو میں مجتہدہوں!   آزادانہ بحث کاحامی ادارہ : معزز سائلين ہمارے ’ علمی نگران مفتى صاحب ‘ سے بحث كرنے والے دريدہ دہن  ٗ مفسد   ٗ شرپسند  اور  بدنيت ہيں ۔ موضوع مقفل كيا جاتا ہے ۔ اب تاريخ اسلام ميں كبھی بھی كسى كو اس موضوع پر بولنے كى اجازت نہيں!!!  

رسولِ خدا كی محبت كا جذبہ ہمارے دلوں ميں اگر زندہ ہو گا

رسولِ خدا ﷺ كی محبت كا جذبہ ہمارے دلوں ميں اگر زندہ ہو گا تو پھرزندگی كا ہر آئندہ لمحہ درخشندہ تابندہ پائندہ ہو گا وہ اخلاق و انسانيت کے پیمبر ﷺ وہ انسان كے سب سے ہمدرد رہبر ﷺ كوئی ان كا ہم پايہ ماضی میں گزرا نہ اس دور میں ہے نہ آئندہ ہو گا حضورِ گرامی ﷺ كے روئے پرانوار كو چاند سے بھی نہ تشبیہ دو تم میں یہ بات اس واسطے كہہ رہا ہوں كہ اس طرح سے چاند شرمندہ ہو گا عرب، تركیا ، مصر، ايران، اردن، مراكش، يمن، شام، ہند، الجزائر جو اس رہبرِحق ﷺ كى عظمت كا منكر ہو كيا كوئى ايسا بھی باشندہ ہو گا؟ كبھی تم جو اس محسنِ دو جہاں ﷺ كے كسى نام ليوا سے جا كر ملو گے تو اپنى صفات و محاسن ميں وہ بھی رسول خدا ﷺ كا نمائندہ ہو گا وہ جن كے صحابہ ہيں بام فلك كے ستاروں كى مانند ضَو بار بزمىؔ ذرا غور كيجے كہ خود ان ﷺ كى عظمت كا معيار كتنا درخشندہ ہو گا ؟  شاعر- خالد بزمیؔ 

كہاں ہے آہ اب وہ مسلموں كى كار پردازی ؟

كہاں ہے آہ اب وہ مسلموں كى كار پردازی ؟ مٹا دى تھی جہاں سے جس نے غيروں كى فسوں سازى  امير و حاكم و شاہ و سپاہی ، صَف شِكن ہم تھے  مجاھد اور منصور و مظفّر، فاتح و غازى  ہمارا كام تھا زُھد و عِبادت، طاعَت و تقویٰ  ہمارا شُغل تھا احسان و حِكمت ، عِلم پَردازى  ہمارى عَقل كرتى تھی طَلِسم و سِحر كو باطل  ہمارے كارناموں سے عَياں تھى شانِ اِعجازى  وہ جرات تھی، وہ ہمّت تھی، وہ اِستَقلال تھا ہم ميں  مُہماتِ زمانہ كو سمجھتے تھے ہم اِک بازى  كہاں اب وہ مساوات و اخُوّت ، وہ مُحبّت ہے ؟ كہاں وہ دوستى ، وہ ہم نشينى اور ہم رازى ؟ كبھی جو تھے بلندى اَوج پر، وہ گر پڑے تھک كر  شِكَستہ بال وپر كو آج كل سُوجھی ہے شَہ بازى كہاں ہے آہ اب وہ مسلموں كى كار پردازی  مٹا دى تھی جہاں سے جس نے غيروں كى فُسوں سازى  شاعر: نامعلوم ​

كتاب الله يشكو.... کتاب اللہ کی فرياد... Complaint of Allah s Book

تصویر

میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا

تصویر

اب اپنے اپنے مقامات میں ہیں کھوئے ہوئے

اب اپنے اپنے مقامات میں ہیں کھوئے ہوئے جو ایک خون کے رشتے میں تھے پروئے ہوئے خلا کے دشت میں گرم سفر ہے قریۂ خاک بدن میں اپنے زمانوں کا غم سموئے ہوئے اجاڑ دے نہ کہیں آنکھ کو یہ ویرانی گزر گئی ہے اب اک عمر کھل کے روئے ہوئے تم اپنا وار سلامت رکھو کہ ہم نے بھی یہ طور دیکھے ہوئے ہیں، یہ دکھ ہیں ڈھوئے ہوئے کبھی کبھی یہ چراغ آسماں کے دیکھتے ہیں ہماری آنکھ میں یادوں کے زخم دھوئے ہوئے کھڑے تھے ہم سر ساحل یہ دیکھنے کے لیے کہ باخبر ہیں کہاں کشتیاں ڈبوئے ہوئے ​ خالد علیم

زندگی جہاد اور موت شہادت

" جرات كى طرح قربانى كے بارے ميں بھی پہلے غلط فہمى ہوئى ۔ خيال تھا كہ يہ گزرے ہوئے زمانے ميں كسى زرہ پوش اور كفن بردوش جذبے كا نام تھا اور اس زمانے ميں جنگ کے ليے ڈھال، تلوار اور يہ جذبہ كام آتا تھا، اب چونکہ ڈھال اور تلوار كا زمانہ نہیں رہا اس ليے قربانى كى بھی چنداں ضرورت نہيں ہے ۔ جنگ كے بارے ميں بھی ميرى واقفيت واجبى تھی ميرا اندازہ يہ تھا كہ جنگ صرف پہلے زمانے ميں ہوتی تھی جب آدمى غير مہذب اور بہادر تھا اور اب اس كى ضرورت نہيں رہی كيونكہ آدمى مہذب اور بزدل ہو گيا ہے ۔ پہلی جنگ عظيم كا ذكر كان ميں پڑا تو خيال ميں صرف اتنى ترميم ہوئی كہ اگر موجودہ دور ميں بھی جنگ كا كوئى وجود ہے تو وہ دور دراز كے علاقوں ميں ہو گا اور ہمارے علاقے كے بارے ميں راوى جب بھی لکھے گا چين لکھے گا ۔ وقت گزرا تو يہ غلط فہمى بھی دور ہوئی، معلوم ہوا كہ جنگ تو ہر وقت اور ہر جگہ جارى ہے ار اس كے وار سے نہ كوئى خطہ خالى ہے اور نہ كوئى لحظہ فارغ ۔ اس جنگ ميں ہر قدم پر قربانى دينى پڑتی ہے اور اس كى بھی مختلف صورتيں ہوتی ہیں۔ انتہائى صورت شہادت ہے مگر بعض لوگوں كى قسمت ميں ايسى زندگی لکھی جاتى ہے کہ وہ جيتے ج...

شعائر اسلام کا استہزا اور آزادئ اظہار کی حدود

بسم اللہ الرحمن الرحيم ​ گزشتہ کچھ سالوں سے دنيا بھر ميں اہانت مقدسات (blasphemy) كے افسوس ناك واقعات ايك تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں ، ان واقعات ميں خاص طور پر دين اسلام كے متعلق جرائم زيادہ نماياں ہیں۔ اس صورت حال ميں ہوناتو يہ چاہیے تھا كہ مسلمان اپنے دين متين كے ليے پہلے سے زيادہ حساس ہوجاتے اور اس كا جوانمردى سے دفاع كرتے مگر دكھ كى بات يہ ہے کہ بعض نام نہاد "تعليم يافتہ" مسلمان رفتہ رفتہ دينى حميت كى دولت سے محروم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر آزادى اظہار كا يہ معنى ہے كہ انسان بلا سوچے سمجھے كچھ بھی کہہ سكے تو يہ آزادى معاشرے کے ليے زہر قاتل ہے۔ ايك مقولہ ہے کہ: " تمہیں چھڑی گھمانے کی آزادی ہے مگر جہاں كسى كى ناک شروع ہوتی ہے وہاں تمہاری آزادی ختم ہو جاتی ہے ۔" آزادى اظہار كے نام پر دوسروں كى ذاتيات ميں مخل ہونے ، ان كے مذہبى جذبات كو مجروح كرنے اور ان كى مقدسات كا مذاق اڑانے كى اجازت قطعا نہیں دى جا سكتى۔  بحيثيت ايك مسلمان اور پاكستانى ميرے ليے بہت دكھ كا مقام ہے كہ اسلام اور دوقومى نظريے کے حامى ہونے كا دعوى كرنے والے ايك نظرياتى اشاعتى گروپ کے  آرگن اخبار ...

خونِ اسلاف جما جاتا ہے شريانوں ميں

خونِ اسلاف جما جاتا ہے شريانوں ميں اب حرارت ہی نہیں سوختہ سامانوں ميں زندگی عيش سے کٹتی ہے پرى خانوں ميں رقصِ ابليس كا منظر ہے شبستانوں ميں نفس بوذرؔ و سلمانؔ كہاں سے لائيں ہوش مندى كا رمق بھی نہیں نادانوں ميں ديكھنے والى نگاہوں نے مسلسل ديكھا  خون جمہور چھلکتے ہوئے پيمانوں ميں خرمن ملت بيضا پہ شرر افشاں ہیں عظمت آدم خاكى كہاں شيطانوں ميں اہل مغرب كى "تصانيف" پہ دم ديتے ہیں اور "قرآن" ہے لپٹا ہوا جزدانوں میں  ابھی رائج ہے حكومت ميں فرنگی قانون ابھی اسلام كا آئين ہے تہہ خانوں ميں  ناظم قوم بھی ہیں تفرقہ پرداز بھی ہیں يہ دو رنگی بھی جنم ليتى ہے انسانوں ميں حوصلہ تنگ ہے، دل تنگ، نظر تنگ مگر وسعت قلب وجگر ديكھیے اعلانوں ميں سرزمين اپنی تو سونا بھی اگل سكتى تھی كام كرنے كا سليقہ بھی ہو دہقانوں ميں زہر دے ديجيے ہم خانماں بربادوں كو  اك اضافہ ہی سہی آپ کے احسانوں ميں خون سے كى ہے غريبوں نے وطن كى تعمير اس حقيقت كو مگر ڈھونڈئیے افسانوں ميں " شكوہ اللہ سے خاكم بدہن ہے مجھ كو " گھر کے مالك بھی گنے جاتے ہیں مہمانوں ميں ​ ش...

جب ہم اپنوں کو خاموشی سے قتل کرتے ہیں

بسم اللہ الرحمن الرحيم ​ السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاتہ آج جى چاہ رہا ہے كہ ايك سوال اٹھايا جائے اور اس كا جواب مل كر تلاش كيا جائے ۔  ميرى ايك جونيئر نے مجھے ايك قول ارسال كيا : " خاموشى ايك ايسا درخت ہے جس پر کڑوا پھل نہیں لگتا " ۔ جب كہ ميں اس قول سے متفق نہیں ہو پا رہی ۔۔۔ شايد يہ ميرے حالات كا اثر ہے ۔۔۔۔  ميرا خيال ہے کہ بے وقت خامشى ايك امر بيل ہے جو انسان كى زندگی كو برباد اور اس كے سماجى تعلقات كے ہرے بھرے باغ كو ويران كر ديتى ہے ۔ خاموشى ، جب آپ كو رب سے مانگنے اور بار بار مانگنے كى ضرورت ہو ، تكبر اور حماقت ہے ۔۔۔  خاموشى ، جب كسى اپنے كو نرم الفاظ كے مرہم كى ضرورت ہو ظلم ہے ، بے مروتى ہے ۔۔۔۔  خاموشى ، جب كسى ظالم كو ظالم كہہ كر صدائے احتجاج بلند كرنے كا وقت ہو ، بدترين بزدلى ہے ۔۔۔ خاموشى ، جب نيكى كا حكم دينے كا وقت ہو ، رب كى نافرمانى ہے ۔۔۔ خاموشى ، جب برائى سے روكنے كا مقام ہو ، بدترين بے حميتى ہے۔۔۔ خاموشى ، جب كوئى آپ پر احسان كرے ناقدرى ہے ، ناشكرى ہے ۔۔۔  ہماری بے وقت خاموشى ، ہميں رب كى رحمت سے دور لے جاتى ہے اور خاموشى...

محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں

بسم اللہ الرحمن الرحيم ​ قادیانی  اپنے  مذہب کی تبلیغ اسلام کے نام سے کرتے ہیں اگر چہ وہ  اپنے مذہب کے سوا سب مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں، ان  كى  کئی ويب سائٹس اسلامی ناموں سے کام کر رہی  ہیں تا کہ معصوم مسلمانوں کو دھوکا دیا جا سکے۔ الإسلام ڈاٹ آرگ بھی ایک قادیانی ویب سائٹ ہے  جس کا ماٹو ہے : " محبت سب كے ليے ، نفرت كسى سے نہیں "  ۔ مسلمانوں كو دھوكہ دينے كے ليے جماعت احمديہ ايسا دعوى تو كر سكتى ہے مگر ان قادیانی کتب اور تاریخ  کا مطالعہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ محبت کا یہ چکنا چپڑا دعوى باطل ہے۔ ملاحظہ فرمائيے خاتم النبيين حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے امتيوں كے متعلق مرزا غلام احمد قاديانى كذاب كے پيروكاروں كا خبث باطن  : مرزا كا خليفہ مرزا بشير الدين بن غلام احمد قاديانى كہتا ہے : " ہر وہ مسلمان جو مسيح (يعنى اس كا والد غلام احمد قاديانى ) كى بيعت نہ كرے، خواہ وہ ان كے بارے ميں سنے نہ سنے وہ كافر اور دائرہ ء اسلام سے خارج ہے۔ "  بحوالہ: آئينہ ءصداقت : ص 35 مزيد اپنے باپ مرزا كے حوالے سے كہت...

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

بسم اللہ الرحمن الرحيم  نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی اور خانگی زندگی کے متعلق غلط فہمیوں اور اعتراضات کا ایک  شافی جواب مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے دیا ہے۔ ذیل میں  الرحیق المختوم کا باب خانہ نبوت پیش کیا جا رہا ہے تاکہ طلبہ علم کے کام آ سکے۔ یاد رہے کہ یہ باب اس سے پہلے یونی کوڈ میں انٹرنیٹ پر موجود نہیں تھا۔  خانہء نبوت ​ 1- ہجرت سے قبل مكہ ميں نبي صلى اللہ عليہ وسلم كا گھرانہ آپ اور آپ كى بيوى حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا پر مشتمل تھا۔ شادى كے وقت آپ كى عمر پچیس سال تھی اور حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا كى عمر چاليس سال۔ حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا آپ كى پہلى بيوى تھیں اور ان كے جيتے جی آپ نے كوئى اور شادى نہیں كى ۔ آپ كى اولاد ميں سے حضرت ابراہیم كے سوا تمام صاحبزادے اور صاحبزادياں ان ہی حضرت خديجہ کے بطن سے تھیں۔ صاحبزادگان ميں سے تو كوئى زندہ نہ بچا البتہ صاحبزادياں حيات رہیں ۔ ان كے نام يہ ہیں ۔ زينب، رقيہ، ام كلثوم، اور فاطمہ ۔ زينب كى شادى ہجرت سے پہلے ان كے پھوپھی زاد بھائى حضرت ابو العاص بن ربيع سے ہوئى۔ رقيہ اور ام كلثوم ...