اشاعتیں

نشان عزم ملت یوم تکبیر

چٹانوں ميں بپا ہے زلزلہ سا  كيا ذرے نے كہساروں كو تسخير مقام شكر ہے الحمد للہ وطن كے خواب نے پائى ہے تعبير كھلا كس شان سے اللہ اكبر  نشان عزم   ملت   يوم تكبير  ​ __شاعر_ خورشيد رضوى ___ ​

صدر كى تسبيح

سياہ تاريك راتوں ميں ايك رات    ميں نے نماز پڑھی اور نيند كى وادى ميں کھو گیا   ميں نے ديكھا كہ صدر كى تسبيح ميرے ہاتھ ميں ہے    اللہ کا ذكر كرنے كا سوچ كر دانے ہاتھ ميں ليے    ليكن ميں نے خود كو "ميرى ذات، ميرى ذات اور ميرى ذات " كا ورد كرتے پايا   اس كے بعد ميں نے دوسرا ورد شروع كيا اور كہنا شروع كيا    ميرى لذتيں   اور اس ورد كو ميں ہزاروں مرتبہ دہراتا چلا گيا    پھر اچانك ميرى آنکھ كھل گئی    ميں نے خود كلامى كى : يہ برى رات كا بدترين خواب ہے۔۔۔    ۔۔۔ بھلا صدر كى بھی كوئى تسبيح ہے؟"    مسبحة الرئيس: عبدالرحمن يوسف   مصرى شاعر  ترجمة : ام نور العين  

تقسیم سے قبل کانگریس کی مسلم دشمنی

جناب قدرت اللہ شہاب ان افراد ميں سے ہیں جو تقسيم ہند سے قبل اور بعد سول سروس سے منسلك رہے۔ تقسيم سے قبل اڑیسہ میں ڈپٹی سيكرٹرى تھے۔ اپنی خود نوشت ميں ان ايام كا ذكر كرتے ہوئے لکھتے ہیں : " اس بار جو ميں نے چیف منسٹر ( اڑیسہ، شرى ہری کرشن مہتاب کانگرسی) كےكاغذات كا جائزہ ليا تو ان ميں ايك عجب دستاويز ہاتھ آئى ۔ یہ چھ سات صفحات كا سائيكلو سٹائلڈ انتہائى خفيہ ( Top Secret) حكم نامہ تھا جو كانگرسى چیف منسٹروں كے نام اس ہدايت كے ساتھ جارى كيا گیا تھا كہ ہر چیف منسٹر اسے اپنی ذاتى تحويل ميں رکھے۔ اس ميں لکھا تھا كہ تقسيم ہند كا معاملہ تقريبا طے پا چكا ہے اس لئے جن صوبوں ميں كانگریس كى وزارتيں قائم ہیں وہاں پر مسلمان افسروں كو كليدى عہدوں سے تبديل كر ديا جائے۔خاص طور پر ہوم ڈپارٹمنٹ، فنانس ڈیپارٹمنٹ اور پريس ڈیپارٹمنٹ ميں با اعتماد ہندو افسروں كو تعينات كيا جائے۔ ڈی- سی، آئى - جى اور ايس - پی عموما ہندو ہوں۔تھانوں کے انچارج بھی زيادہ سے زيادہ ہندو ہوں ۔محكمہ پولیس اور ضلعى انتظاميہ ميں مسلمانوں كو فيلڈ ورك سے ہٹا كر بے ضرر قسم كے دفترى كام كاج ميں لگا ديا جائے۔ پولیس كى نفرى ميں مسل...

انگریز کے یرغمالی

افضل جوزف كے گھر کے قريب ڈاكٹر ماہ گرفتہ كا گھر ہے۔ سيٹھی کے فليٹ كى سيڑھیوں كے ساتھ لقمہ ء لذيذ نام كا ايك چھوٹا سا ريستوران واقع ہے۔ خواجہ نعيم كے گھر جاتے ہوئے جوتوں کی دكان كے بورڈ پر نظر پڑی۔ نام ہے برہنہ پاہا۔ ننگے پاؤں۔ مرزا صاحب كے گھر كے راستہ ميں بجلی كے ليمپ اور فانوس بیچنے والے نے دكان كا نام چراغ ونور ركھا ہوا ہے۔ محمود اور شميم كے گھر کے پاس زمين دانش گاہ يعنى يونيورسٹی کیمپس واقع ہے جہاں ہر طرح كے لوگ پائے جاتے ہیں۔ دانش جو دانش پرور، دانش پرست، دانشور، دانشى اور دانش دوست ۔ یہاں علم ودانش كے مراكز كو دانش گاہ، دانش كدہ، دانش سرا، دانش پناہ اور دانش آباد كہتے ہیں۔ يہ اہل دانش ٹھہرے۔ اگر ہمارى طرح انگريز كے يرغمالى ہوتے تو يہاں بھی قدم قدم پر يونيورسٹی ، كالج، اسكول، انسٹیٹیوٹ ، فيكلٹی ، ڈپارٹمنٹ اور بيورو كا جال پھیلا ہوتا۔   یہاں اس قسم كى بد مذاقى كى كوئى گنجائش نہیں ہے ۔ (مختار مسعود، لوح ایام) 

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے یہاں اسلام کا پرچم کبھی جھکنے نہیں دیں گے يہ ارض پاك ہے مسكن فدايان محمدﷺ كا  كوئى قانون باطل كا يہاں چلنے نہیں دیں گے ہزاروں سازشيں کر لو اے مغرب کے پرستارو شہیدوں کی وراثت کو کبھی لٹنے نہیں دیں گے دلوں سے دین كى الفت مٹائى جا نہیں سكتى  محبت غير كى سينوں ميں ہم بسنے نہیں ديں گے  ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے یہاں اسلام کا پرچم کبھی جھکنے نہیں دیں گے شاعر:نامعلوم

الہی طاقت ایمان پھر ہم کو عطا کر دے

الہی طاقت ایمان پھر ہم کو عطا کر دے خداوندا ہمیں رازِ خودی سے آشنا کر دے کبھی بادِ مخالف سے نہ دل برداشتہ ہوں ہم جو ٹکرا جائے طوفانوں سے وہ ہمت عطا کر دے  گھری ہے کشتیِ اسلام طوفانوں کی گردش میں ہمیں پھر ناخدا فاروق اعظم رض سا عطا کر دے  عطا کر حضرت صدیق رض سا قلب و جگر ہم کو خدایا ہم کو تو عثمان رض جیسا پارسا کر دے بہار آئے الہی گلشن اسلام میں ایسی گل و بلبل کو جو یا رب خزاں نا آشنا کر دے  -شاعر----- مولانا محمد داود راز دہلوی رحمہ اللہ تعالی -----------

حلیہ مطہرہ بزبان ام معبد رضی اللہ عنہا

نبي كريم حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے حليہ مباركہ کے سلسلے ميں مروى حديث ام معبد رضي اللہ عنہا، طالبان علم كے نزديك معروف ہے۔ محترم عليم ناصرى حفظہ اللہ نے اپنی رزميہ مسدس "بدر نامہ" ميں اس كو بہت خوب صورتى سے نظم كيا ہے۔ " بولى عفيفہ مادرِ معبد كہ كيا كہوں؟ حيران ہوں كيسے اس ﷺ كا سراپا بياں كروں ؟ اوصاف اس حبيب ﷺ كے ميں كس طرح گنوں ؟ اس كے حسيں وجود كو تشبيہ كس سے دوں ؟ وہ پیكرِ جميل سراپا جمال ہے ! ميرى زباں سے اس كى ستائش محال ہے ! پاكيزہ رو، كشادہ جبيں، چشم سرمگیں گردن بلند، پتلياں روشن، قد حسيں شيريں كلام، جادو بياں، نطق انگبين پیوستہ ابرو، غاليہ مو، زلف عنبريں دل بستگی ليے ہوئے خاموش و پروقار  آواز پر جلال و ہمہ تمكنت شعار! ديکھیں جو دور سے تو وہ زيبا دكھائى دے ! بولے تو كھینچتا ہوا دل كو سنائى دے !  گفتار موتيوں كى لڑى سى سجھائى دے مظلوم اس كے پاس پنہ كى دہائى دے  اس كے رفيق سنتے تو ہیں بولتے نہیں فرمان پر زبان كبھی كھولتے نہیں" شاعر: علیم ناصری اقتباس از : بدر نامہ ، رزميہ مسدس ص 74 

ترے فراق کا غم ہے مجھے نشاط انگیز

ترے ﷺفراق کا غم ہے مجھے نشاط انگیز یہی ہے راہرو شوق کے لیے مہمیز اسی کے نم سے ہے باقی مری نگاہ کا نور اسی کے سوز سے ہے سازِ دل نوا آمیز اسی کا جذبِ خوش آہنگ ہے نظر میں کہ آج مرا کدو ہے مئے سلسبیل سے لبریز مرے کلام میں تاثیر اسی کے دم سے ہے اسی سے فکر کی بنجر زمین ہے زرخیز خالد علیم

حضور کا فرمان

۔۔۔ہالینڈ ميں پہنچ كر محكمہ پروٹوكول كے ايك افسر نے مجھے برسبيل تذكرہ يہ بتايا كہ اگر ہم سور (خنزير) كے گوشت (پورک،ہیم، بيكن وغيرہ) سے پرہیز كرتے ہیں تو بازار سے بنا بنايا قيمہ نہ خريديں كيونكہ بنے ہوئے قيمے ميں اكثر ہر قسم كا ملا جلا گوشت شامل ہوتا ہے۔ اس انتباہ کے بعد ہم لوگ ہالينڈ كے استقباليوں كے ايك من بھاتا کھاجا قيمے كى گولياں   ( Meat Balls) سے پرہیز كرتے تھے۔ايك روز قصرِ امن    ميں بين الاقوامى عدالت عاليہ كا سالانہ استقباليہ تھا ۔ چودھری ظفر اللہ خان (قاديانى ) بھی اس عدالت كے جج تھے۔ ہم نے ديكھا كہ وہ قيمے كى گولياں سِرکے اور رائى كى چٹنی ميں ڈبو ڈبو كر مزے سے نوش فرما رہے ہیں۔ ميں نے عفت سے كہا: آج تو چودھرى صاحب ہمارے ميزبان ہیں، اس ليے قیمہ بھی ٹھیک ہی منگوايا ہو گا۔ وہ بولى : ذرا ٹھہرو، پہلے پوچھ لينا چاہیے۔ ہم دونوں چودھری صاحب كے پاس گئے۔سلام كر كے عفت نے پوچھا : چودھرى صاحب یہ تو آپ كى ريسپشن ہے۔قيمہ تو ضرور آپ كى ہدايت كے مطابق منگوايا گيا ہو گا؟ جواب ديا: ريسپشن كى انتظاميہ كا محكمہ الگ ہے۔ قيمہ اچھا ہی لائے ہوں گے ۔لو يہ كباب چکھ كر ديكھو۔ عقت نے...

مجھ سے بياں ہو كس طرح عظمت و شان عبده

مجھ سے بياں ہو كس طرح عظمت و شان عبده صاحب عبد آپ ہے مرتبہ دانِ عبده عابد ربِ ذوالجلال عبد شكورِ كبريا نقش عبوديت تمام نطق و بيان عبده‘ كس كو خبر، كسے ہے علم، كون ہے جو سمجھ سكے؟ صاحب عبد سے ہے كيا قرب و قران عبده فتح پہ ديدنى رہيں سيلِ كرم كى وسعتيں جاں كے عدوّ بھى پاگئے حفظ و امانِ عبده زير و زبرہوئيں تمام قيصر و جم كى سطوتيں فارس و شام پر اڑا ايسے نشانِ عبده ہے ابوجہل آج بھى بے خبر مقامِ عبد بولہبى سے ہے ورا حرف و زبانِ عبده سامنے فوجِ كفر كے كافى ہے ذاتِ حق اُسے كاٹ دے بڑھ كے صف پہ صف تيغ فسانِ عبده كافه ٴ ناس دھر ميں، شافع ناس حشر ميں يہ بھى جہانِ عبده ، وہ بھى جہانِ عبده مدحت شاہكار بھى مدحت كار ساز ہے ميں ہوں  عليم  اسى لئے زمزمہ خوانِ عبده شاعر: علیم ناصری

محمد عربى صادق و سعيد و اميں

محمد عربى صادق و سعيد و اميں سكون قلب پريشاں قرار جانِ حزيں رفيق دازدگان غمگسارِ غمناكاں خليق و خوش نظر و خوبرو و خنده جبيں رسالت ابدى پر ہے جس كى مہرِ دوام وہ جس كے بعد نبى و رسول كوئى نہيں وہ صادق ازلى صدق كا رہا قاسم اگرچہ كثرت كذاب تھى يسار و يميں وہ قلب مخزن عرفاں وہ ذات معدن نور وہ سينہ مصدر وحى خفى و وحى مبيں وہ جس كے عہد ميں شامل ہيں سب سنين و دھور وہ جس كے درپہ ہے خم ہر قديم و نو كى جبيں وہ ذات جس كے مقامات ہيں ورائے شعور كبھى ہے زينت منبر كبھى ہے تخت نشيں وہ جس كى كنہ كا محرم ہے خالق ازلى بشر كا زور تخيل فقط ظن و تخميں مرا تو فرض ہے بھيجوں درود، نعت كہوں طلب ہے داد كى مجھ كو نہ خواہش تحسيں عليم  شعر ميں كيونكر كرے ثنائے حضور اس آسماں كے لئے تنگ ہے سخن كى زميں شاعر: علیم ناصری

ميرے وطن تيرى خاك ميں بھی روشنى ہے

يہ سچ ہے وسعت افلاك ميں بھی روشنى ہے  ميرے وطن تيرى خاك ميں بھی روشنى ہے وطن كى خاك پر انوار ہے لباس مرا  سو میرے دامن صد چاک ميں بھی روشنى ہے وطن كے سُكھ بھی ہمارے تھے ، دکھ بھی اپنے ہیں سو ديکھ ديدہء نم ناك ميں بھی روشنى ہے   پیرزادہ  قاسم

MUHAMMAD ( Sallallahu alaihi wa sallam)

تصویر
http://rasoulallah.net/Photo/index.php?album=Signature&image=sig_eman.gif Amid the confusion, the chaos and the pain A man emerged and Muhammad was his name And walking with nothing but Allah as his aid And the mark of a Prophet between his shoulder blades In a cave in mount hira, the revelation came Read o Muhammad, read in Allah's name May the blessings of Allah be on al-mustafaa None besides him could have been al-mujtabaa Muhammad, peace be upon his soul The greatest of prophets, Islam was his only goal Muhammad, salla Allahu 'alayhi wa sallam From among all prophets, Muhammad was the last As his was a mission of the greatest task There was only moral degeneration People clung to idol adoration For all nations, he was al-mukhtaar So was he praised by Allah, al-ghaffaar The bearer of glad tidings, al-basheer Leading unto light, as-seeraj-al-muneer Muhammad, peace be upon his soul The greatest of prophets, Islam was his only goal Muhammad, salla A...

جو تیرے بس میں ہو وہ کر

کبھی خدا کے ساتھ ہیں، کبھی بتوں کے درمیاں عـجب ہمارا حــال ہے ، کبھی یہــاں کبھی وہاں وہ رزم گاہِ شــوق ہو یا بزم ہائے دوســتاں لیے چلی ہے جستجو تری مجھے کشاں کشاں جو تیرے بس میں ہو وہ کر، تو بتکدوں میں دے اذاں سـنائے جا سـنائے جا، مـحـبتوں کی داسـتاں خالد اقبال تائب

آسمانِ تجسس كا روشن ستارہ

مسندِ علم ويران ہے خلق انجان ہے شہر پستہ قداں سے کتنا بڑا آدمى اٹھ گیا آدمی وہ جو کہ عمر بھر گرد بادِ جہالت کے عفریت کو خامہء علم سے پابہ زنجیر کرنے میں کوشاں رہا دشتِ تحقیق کی نا شگفتہ و دور آشنا سرزمینوں کی تسخیر میں پابرہنہ و تنہا سہی سر بگرداں رہا ایک آتش فشاں اپنے سینے میں دہکائے ۔۔۔ برفاب ذہنوں کو تحلیل کرتا رہا حرف و الفاظ ومعنى كى ترسيل كرتا رہا اپنے حيران جذبوں كى تكميل كرتا رہا كم نظر، بے بصر اہلِ دانش كے انبوہِ بے فیض میں آسمانِ تجسس كا روشن ستارہ تھا وہ تن بہ تقدير، آساں پرستوں کے شہرِ دل آزار میں عزم وہمت کا، محنت کا اك استعارہ تھا وہ ہر نئے دِن کا تازہ شمارہ تھا وہ اك ادارہ تھا وہ کام جنت تھا اس کی، مجھے ہے گماں، خلا میں بھی، وہ ’قاموسِ فردوس‘ ترتیب دینے کی دھن میں ملائک سے مصروفِ تحقیق ہو گا سيد قاسم محمود كى ياد ميں _______ محمد آصف مرزا

ندائیہ

تصویر
یہ تنکوں کی کھاٹ اور کاغذ کی کشتی لکیروں کا خاکہ ۔۔۔ وہی دید و آواز کی بات لہروں سے بنتے ہوئے ۔۔۔ واقعے کا تماشا ۔۔۔۔۔ تماشے کی نقلیں ۔۔۔ وہی خشک تختی پہ املاء کا لکھنا ہتھیلی سے پونچھی ہوئی تیرگی کی سلیٹوں پہ ۔۔۔ چوبیس تک کے پہاڑے کی مشقیں وہی زِچ کی حالت میں خواب وحقیقت کے مہرے ! یہ نظمیں یہ غزلیں ۔۔۔۔ تصور کے چوگان میں فکر وجذبہ کے گنجے سواروں کی بازی ! زبان وبیاں کے طاقوں میں چلتی ہوئی ۔۔۔ تاش، کیرم ، سنوکر کی کھیلیں ، یہ بازیچہ ء روزوشب ہے یہاں ۔۔۔ کتنا کھیلو گے؟ کیا کھیلتے ہی رہو گے ؟ بڑے ہو گئے ہو   http://www.artrabbit.com/uk/events/event&event=1821 آفتاب اقبال شمیم
دل در سخنِ محمدی بند اے پورِ علی ز بو علی چند چوں دیدہ ء راہ بیں نداری قاید قرشی بہ از بخاری اے اولاد علی ( خلیفہ راشد حضرت علي رضي اللہ عنہ ) تو کب تک بوعلی (سینا) کے فلسفے سے چمٹا رہے گا ؟ تو اپنا دل سخن محمدی ــــ حدیث رسول ــــ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے لگا ۔ چونکہ تیرے پاس راستہ پہچاننے والی آنکھ نہیں ، اس لیے کسی بخاري( بوعلی سینا) کوراہبر بنانے سے بہتر ہے کہ قریشی ( صلى اللہ عليہ وسلم ) کو راہنما بنا ۔ فارسی شاعرافضل الدین خاقانی کی مثنوی تحفہ العراقین کے ان اشعار کو اقبال نے اپنی نظم ’ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام ‘ کے آخر میں شامل کیا ہے ۔

ورفعنا لک ذکرک

تصویر
تیرے تیور، میرا زیور تیری خوشبو، میری ساغر تیرا شیوہ، میرا مسلک ورفعنا لک ذکرک میری منزل، تیری آہٹ میرا سدرہ ، تیری چوکھٹ تیرا صحرا، میرا پنگھٹ ورفعنا لک ذکرک میں ازل سے تیرا پیاسا نہ ہو خالی میرا کاسہ تیرے صدقے تیرا بالک ورفعنا لک ذکرک تیرے دم سے دل بِینا کبھی کعبہ کبھی سِینا نہ ہو کیوں پھر تیری خاطر... میرا مرنا، میرا جینا ؟ ورفعنا لک ذکرک ***** مظفر وارثی

The man who wins .....

تصویر
If you think you are beaten, you are;  If you think you dare not, you don't. If you like to win, but think you can't it's almost a cinch you won't!  ***** If you think you'll lose, you are lost; for out in the world we find Success begins with a fellow's will; it's all in the state of mind. ****   If you think you are outclassed you are; you've got to think high you rise, you've got to be sure of yourself before you can win the prize!  **** Life is battle don't always go to the stronger or faster man; but sooner or later the man who wins is the man who thinks he can!  ********** by Walter D. Wintle

صد شکر میرے خوابوں پہ تعزیر نہیں ہے

تصویر
اب فـکر گـراں بـارئ زنـجـیــر نہیں ہے لیکن یہ مرے خواب کی تعبیر نہیں ہے اس شہر کی تقدیر میں لکھی ہے تباہی وہ شـہر جہاں علم کی توقیـر نہیں ہے ! جانا تو ہمیں تھا مگر یوں تو نہیں تھا دامـن سے كوئى ہاتھ عناں گیر نہیں ہے اك درد سا پہلو میں جو رہتا ہے شب وروز اس دل میں تـرازو تو کوئی تيــر نہیں ہے صـد حیف خیالات کے اظہار پہ قـدغـن صد شکر میرے خوابوں پہ تعزیر نہیں ہے ان کھردرے دکھتے ہوئے ہاتھوں پہ لکھا ہے تدبیـر تو ہاتھوں میں ہے تقدیـر نہیں ہے اطہر قیوم