روشنی چاہیے کس مول ملے گی صاحب؟

روشنی چاہیے کس مول ملے گی صاحب؟
نقدِ جاں ہے مرے پلو میں، چلے گی صاحب ؟ 

اے طلب گارِ وفا، یہ ہے اصولِ بازار
جنس کم ہو گی، تو قیمت تو چڑھے گی صاحب 

زندگی بھر کی مشقت کا صلہ، ایک سوال
اب یہ گاڑی کبھی پٹڑی پہ چڑھے گی صاحب ؟

دل کے تالاب کے ٹھہرے ہوئے سناٹوں میں 
سنگ پھینکو گے تو ہلچل تو مچے گی صاحب

زندگی کیا، کسی مزدور کی بیگار ہوئی 
اور اسی طرح سے باقی بھی کٹے گی صاحب

اب افسانے کا یہ انجام نہیں بدلے گا 
اب یہی فلم ہر اک بار چلے گی صاحب

تم چلے جاؤ گے تو بھی یہی منظر ہوں گے 
بس یہ دنیا مری دنیا نہ رہے گی صاحب 

مسترد دل کی تلافی نہیں ہوتی کچھ بھی 
بن بھی جائے گی تو نہ اب بات بنے گی صاحب

میری خدمت، مری عزت کے مقابل رکھو
پورا تولو گے، تبھی بات بنے گی صاحب

سانپ تو آئیں گے اس گھونسلے کی سمت مگر
چڑیا مر کر بھی نہ انڈوں سے ہٹے گی صاحب 

یہ تو معلوم ہے ڈھل جائے گی یہ رات رضی 
کتنی قربانی مگر لے کے ڈھلے گی صاحب ؟

​شاعر
پروفیسر ڈاکٹر سید رضی محمد


تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

اے وطن پاک وطن روح روان احرار