نہ کرو ظل الہی کی برائی کوئی، دوستو کفر نہ پھیلاؤ نمک خواروں میں!

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ کچھ لوگ  اس قدر انا پسند ہوتے ہیں کہ ہر شخص  کو اپنی مرضی پر چلانا چاہتے ہیں، اگر وہ دوسروں پر قابو پانے میں ناکام رہیں تو  ان کی شخصیت کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں  تا کہ انہیں  اپنی بات نہ ماننے کی سزا دے سکیں، اور لوگوں کی نظر میں ان کا تاثر تباہ کر سکیں۔
حال ہی میں اردو مجلس کے ایک موضوع میں اہل حدیث یوتھ فورس کی حمایت اور مخالفت میں بحث ہو گئی ، جس میں  راقمہ نے اہل حدیث یوتھ فورس کے پہلے صدر اور کچھ  کے مطابق بانی محمد خان نجیب گجر کو شہید لکھنے اور مسلک اہل حدیث کے اسلاف میں شمار کرنے پر اعتراض کیا تھا۔ یہ بھی عرض کیا گیا تھا کہ اس شخص کو صدر بنانا شیخ احسان الہی ظہیر کی سیاسی غلطی تھی۔ اس پر اہل الحدیث نامی ایک منتظم اور اہل حدیث یوتھ فورس کے سینئر ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلمان اعظم   (جی ہاں یہ  ساراایک ہی بندے کا نام ہے)نے غیر ضروری شور شرابہ کر کے یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی کہ   دنیا کے سارے اہل حدیث کی شان میں گستاخی ہو گئی ہے اور شیخ احسان الہی ظہیر کے خلاف لکھا جار ہا ہے، جب کہ اسی مجلس پر شیخ احسان الہی ظہیر کی کتابوں پر میرے تبصرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس پر  میں نے ایک بار پھر واضح لکھا کہ  نجیب خان گجر ایک تشدد پسند انسان تھا، اسے شہید لکھنا یا مسلک اہل حدیث کا سلف لکھنا غلط ہے اور اگر آپ لوگوں کے سیاسی شہید اتنے مقدس ہیں کہ ان کے بارے میں بات نہیں ہو سکتی تو پھر اہل تصوف کے مزارات پر کیا اعتراض؟  اتنی سی بات پر اردو مجلس کے منتظم اہل الحدیث صاحب آپے سے باہر ہو گئے اور  پوری کوشش کی کہ مجھے گستاخ اکابر ثابت کر سکیں۔  اس دوران مجھے جو کہا سو کہا ، بعض  خواتین ارکان کو صرف مجھ سے  دوستی  کی وجہ سے انتہائی نامناسب الفاظ کہے۔ یہ اصورت حال میرے لیے ناقابل برداشت ہے۔
جب سے یہ حضرت منتظم بنے ہیں، ہر سال کوئی نہ کوئی ایسا گل ضرور کھلایا ہے جس سے اردو مجلس کو نقصان پہنچا۔  شروع میں منتظم بنتے ہی ایک روز دوانتہائی متحرک ارکان مجلس ساجد تاج اور عبدالرحمن یحیی  کو معطل کر دیا۔  جب ہمیں خبر ملی تو شدید حیرت ہوئی ، بہرحال سب سے پوچھا کہ آخر کس نے یہ فیصلہ کیا ، معلوم ہوا کہ کئی منتظمین کو خبر ہی نہیں کہ کیا ہو چکا ہے۔ آخر پتہ چلا کہ  اہل الحدیث صاحب نے کیا ہے۔ ان سے   سبب پوچھا گیا تو فرمانے لگے کہ ان کے مراسلے حذف کرتے  وقت غلطی سے بین ہو گئے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ اس غلطی کوجلد از جلد درست کر دیں  اور ان ارکان کو اصل صورت حال بتا دیں تا کہ ان کی دل آزاری نہ ہو۔ اس پر جناب نے ادھر ادھر کی باتیں تو کیں ، عمل نہیں کیا۔یہ عذر بھی پیش کیا کہ انہیں بین کرنا آتا ہے ہٹانا نہیں آتا۔  کسی دوسرے منتظم سے کہہ سن کر ان ارکان کو بحال کروایاا گیا لیکن اہل الحدیث نے ان سے معذرت نہیں کی حالاں کہ یہ ان کا اخلاقی فریضہ تھا،  ظاہر ہے کہ ان ارکان  کی دل آزاری ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ کبھی بھی پہلے کی طرح متحرک نہیں رہ سکے اور یوں کئی دلوں میں  میل آ گیا۔  
اسی طرح انہیں  مجلس ادب کے لیے بقول ان کے  ایک انتہائی موزوں ناظم مل گئے اور بہت سے منتظمین کے اصولی اختلاف کے باوجود اصرار کر کر  کے نعمان نیر کلاچوی کو ناظم ادب بنوا کر دم لیا۔ بعد میں  فاروق درویش اور سارا غزل نے خبر دی کہ کلاچوی صاحب  فیس بک پر قادیانیت کے حق میں مباحثے کرتے پائے گئے ہیں اور بقول ان کے مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر کہنا بھی غلط ہے۔ یہ انتظامیہ مجلس کے لیے ایک اور دھچکا تھا۔ ایسے ہی واقعات کے سبب ہمیں نہیں معلوم کہ اہل الحدیث صاحب کس وقت  کیا کریں گے اور ان کی افتاد طبع ان کو کدھر لے جائے گی۔
اسی نامعقولیت اور غیر سنجیدگی کے باعث سال بھر پہلے   انہیں اردو مجلس کی انتظامیہ سے  نکال دیا گیا تو ہمیں ان باکس میں دردناک پیغام بھیجا کہ دیکھیے ہمارے دوستوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ مجھے نہ تو اس فیصلے کی خبر تھی نہ سبب معلوم تھا۔ بہر حال انتظامیہ سے رابطہ کیا، میرا موقف یہ تھا کہ سب کو صلح کے ساتھ کام کرنا چاہیے سو بسیار کوشش اور منتوں سماجتوں کے بعد انہیں دوبارہ انتظامیہ میں شامل کیا گیا۔   لیکن مجلس کے مختلف منتظمین نے آپس میں کدورت باقی رکھی، ایک دوسرے سے مشاورت کرنا تو درکنار ایک دوسرے کو خبر کیے بغیر فیصلے کیے جاتے رہے۔ اختلاف روز بہ روز بڑھتا رہا۔  اس کا نتیجہ آج یہ نکلا کہ اہل الحدیث نے میری جان پہچان والی ارکان  مجلس سے بداخلاقی کی، اس پر منتظم مجلس سے شکایت کی گئی تو  یہ سہانا جواب دیا گیا کہ آپ ہی انہیں واپس لائی تھیں اس لیے اب نتائج  بھگتیں۔ گویا ہر انسان اپنے  اپنے پرانے بدلے چکانے پر مصر ہے اور دعوی ہے اسلامی اخوت اور صرف دین کی خاطر  مل کر کام کرنے کا۔ جن لوگوں نے بحث کے  دوران ایک لفظ نہیں لکھا ان سے بدتمیزی کا کیا مطلب ہے؟
اس ساری صورت حال میں یہی سمجھ آتا ہے کہ یہ سب اپنی اپنی ناک کے قیدی ہیں جو ان کے درمیان صلح اور اتفاق کی کوشش کرے    اس کو ہر جانب سے  کوسنوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔یہ سب لوگ نہ تو کبھی مشاورت اور مل جل کر کام کرنے کے قائل تھے نہ ہی کبھی ہو سکیں گے، ان کے اختلافات میں پس کر وقت ضائع کرنے سے بہتر  ہے  کہ   دعوت دین کے دوسرے پر سکون ذرائع کو اپنایا جائے اور ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔  میں اپنی   فرینڈز سے انتہائی شرمندہ ہوں کہ اس قدر کم ظرف    لوگوں سے انہیں متعارف کروایا  جو معذرت یا مروت جیسے آداب سے بھی واقف نہیں۔ ان کا قیمتی وقت برباد ہوا۔ اللہ انہیں  ان کی خدمات کا بہتر بدلہ دے اور انہیں بہتر جگہ دے جہاں ان کی صلاحیتوں اور وقت   کی قدر کی جائے۔ با صلاحیت انسان کے لیے زندگی  ہمیشہ نئے مواقع فراہم  کرتی رہتی ہے۔ مجھے معلوم ہے وہ جہاں جائیں گی اپنی راہ بنا لیں گی۔  ہاں سیاسی جماعتوں کی شاخوں پر یہی الو ہمیشہ لٹکتے رہیں گے۔  


تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

اے وطن پاک وطن روح روان احرار