دائیں اور بائیں بازو میں سیاسی عدم برداشت پر ایک تبصرہ

حیرت ہے کہ ابوبکر قدوسی صاحب کن "گڈ اولڈ ڈیز" کا ذکر کرتے ہیں جس میں "ہمارے" لوگ علمی اختلافات کے ساتھ چلتے رہتے تھے اور ایک دوسرے کو جماعت سے خارج نہیں کرتے تھے؟  
جہاں تک میرا مطالعہ ہے ہم نے انگریز، ہندوؤں اور سکھوں کو نکال کر ملک پاک کیا، اس کے بعد بنگالیوں کو نکالا، اس کے بعد دائیں بازو کی جماعتیں ہوں یا بائیں بازو کی ہر جماعت سے لوگوں نے ایک دوسرے کو نکالا ،نتیجتا ہر جماعت سے دس بیس جماعتیں اورہر شوری سے امیر پہ امیر نکلے۔ جب پورے ملک میں یہ وبا ہے تو اسی مزاج کی تربیت اہل حدیث کے "شاہین بچوں" کی بھی ہوئی۔ ہم نے کس دن نوجوانوں کی ایسی تربیت کرنے کا سوچا کہ وہ ایسے گمراہ ہاتھوں میں نہ پڑیں؟ یہ جو جذباتی لڑکے یہاں وہاں علما پر تنقید کرتے ہیں، اور مدرسے کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر بھی مجتہد بن جاتے ہیں، یہ انہی جماعتوں کی تربیت ہے۔ ان جماعتوں سے بازو ٹوٹتے ہیں اور امیبا کی طرح ایک نئی جماعت بن جاتی ہے۔ دو ڈھائی سو مذہبی جماعتوں کی تعداد روز افزوں ترقی پر ہے تو سبب یہی عدم برداشت ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ مذہبی رجحان بڑھ رہا ہے۔ ہماری اتنی طویل و عریض جماعتوں اور جمعیتوں میں ایک دوسرے کو طعنے دینے والے تو بہت ہیں، کوئی ایسا بھی ہے جو ان لوگوں کو نرمی سے سمجھائے اور معاملہ سلجھائے۔
رہی بات اہل حدیث سے اخراج کی، جنہوں نے کچھ وقت مطالعے میں صرف کیا ہے انہیں معلوم ہو گا کہ اپنے زمانے کے شاہ جذبات قسم کے لوگوں نے مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف اور مولانا عبدالغفار حسن رحمہم اللہ کو بھی اہل حدیث سے خارج قرار دیا تھا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا حنیف ندوی کا قصہ کئی لوگوں کو معلوم ہو گا۔ جماعتی اختلافات کو سلجھانے کی کوشش کرنے والے مولانا داؤد غزنوی کا ایک قول بہت مشہور ہوا تھا کہ وہ ۔۔۔ کی پنسیری کر رہے ہیں۔ ہر دور میں ہماری جماعت میں "مخلصانہ" کوشش کی جاتی رہی ہے کہ اول تو چند بڑے خاندانوں کے باہر علماء پیدا نہ ہوں، پھر بھی جو سخت جان یہ منزل طے کر لے، اس کی اچھی طرح حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، پھر بھی باز نہ آئے تو جبرا گوشہ نشینی کی جانب دھکیل دیا جاتا ہے، لیکن علم و عمل کی خوشبو کو روکنے پر بس نہیں چلتا تو ان کو دینی تشخص سے ہی محروم کر دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ تاریخ خود فیصلہ کر دیتی ہے کون کس مقام کے لائق تھا۔
قصہ مختصر نکالنے کا کام تو پہلے سے ہو رہا تھا، لیکن اس میں بڑے بڑے نام اور خاندان تھے اس لیے بات دب جاتی تھی، سلفی پبلیکیشنز اور سلفی ٹالک والوں نے ذرا سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر یہ کام کیا ہے اور بغیر کسی سیاسی گدی کے شروع کیا ہے اس لیے لوگوں کی نظر میں آ گیا۔

تبصرے

مقبول ترین تحریریں

قرآں کی تلاوت کا مزا اور ہی کچھ ہے ​

احسن القصص سے کیا مراد ہے؟ سورۃ یوسف حاصل مطالعہ

درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام

کارسازِما بہ فکر کارِ ما

کیا جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنا بدعت ہے؟

نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کا جواب

امن و اخوت عدل ومحبت وحدت کا پرچار کرو

ہم اپنے دیس کی پہچان کو مٹنے نہیں دیں گے

اے وطن پاک وطن روح روان احرار